Ahmad Rahi

Ahmad Rahi

احمد راہی

لکھے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں

پیر 2 ستمبر 2024

وقار اشرف
معروف نغمہ نگار، شاعر اور مکالمہ نویس احمد راہی کو مداحوں سے بچھڑے 22 برس بیت گئے لیکن ان کے لکھے ہوئے نغمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔احمد راہی 2 ستمبر 2002ء کو 78 سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے اور لاہور میں آسودہ خاک ہیں۔وہ لگ بھگ چالیس سال تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے، آخری گانا انہوں نے 1998ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ”نکی جئی ہاں“ کے لئے لکھا تھا جس پر انہیں نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

12 نومبر 1923ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد راہی کا اصل نام غلام احمد تھا۔ایم اے او کالج میں سیف الدین سیف ان کے کلاس فیلو تھے جن کی دوستی نے غلام احمد کو بھی آہستہ آہستہ شاعر بنا دیا اور انہوں نے اپنے نام کے ساتھ غلام ہٹا کر احمد کے ساتھ راہی کا اضافہ کر لیا۔

(جاری ہے)

سیف الدین سیف اور احمد راہی نے شاعری کا آغاز پنجابی شاعری سے کیا، اگرچہ سیف الدین سیف اور احمد راہی گہرے دوست تھے مگر سیف الدین سیف شاعری میں احمد راہی کے استاد تھے۔

تقسیم کے بعد احمد راہی نے ترقی پسند ادبی مجلے ”سویرا“ کی ادارت سنبھالی پھر فلمی دنیا کا رخ کر لیا اور فلمی کیریئر کا آغاز تقسیم کے وقت ہونے والے فسادات کے پس منظر میں بننے والی پنجابی فلم ”بیلی“ سے کیا جس کی کہانی سعادت حسن منٹو نے لکھی تھی مسعود پرویز نے اس فلم کو ڈائریکٹ کیا تھا۔
احمد راہی نے اس کے بعد پرواز، مجرم، پتن، ماہی منڈا، یکے والی اور سردار جیسی فلموں کے علاوہ مسعود پرویز اور خواجہ خورشید انور کی مشہور پنجابی فلم ”ہیر رانجھا“ کے بھی نغمات لکھے جن میں ”سن ونجھلی دی مٹھڑی تان وے“ اور ”ونجھلی والڑیا توں تے موہ لئی اے مٹیار“ بے حد مقبول ہوئے تھے۔
احمد راہی کے لکھے ہوئے دیگر مقبول نغموں میں میری چُنی دیاں ریشمی تنداں، چوڑے والی بانہہ نہ مروڑ، نہ عشق نوں لیکاں لائیں، برے نصیب میرے، نِکے ہوندیاں دا پیار، سجے دل والے بوہے اجے میں نہیوں ڈھوئے، آندا تیرے لئی ریشمی رومال، جدوں تیری دنیا توں پیار ٹر جائے گا، رناں والیاں دے پکن پروٹھے، کوئی نواں لارا لا کے مینوں رول جا، اینی گل دس دیو نکے نکے تاریو اور دیگر شامل ہیں۔

انہوں نے تقریباً ایک درجن اردو فلموں کے لئے بھی خوبصورت نغمے تحریر کئے۔ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم ”باجی“ کے گیتوں نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے، ملکہ ترنم نور جہاں اور نسیم بیگم کی آواز میں گائے ہوئے یہ گیت آج بھی سننے والوں کو سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔احمد راہی کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ جتنے پیسے ملکہ ترنم نور جہاں ایک گانے کے وصول کیا کرتے تھیں وہ اس سے ایک روپیہ زیادہ وصول کیا کرتے تھے۔
رومانوی داستانوں ہیر رانجھا، مرزا صاحباں اور سسی پنوں کے نغموں کے علاوہ ان کے اسکرپٹ بھی احمد راہی نے لکھے تھے۔موسیقار خواجہ خورشید انور کے ساتھ انہوں نے انتہائی معیاری کام کیا تھا۔”یکے والی“ اور ”چھو منتر“ کے گیتوں نے احمد راہی کی کایا پلٹ دی، یہ دونوں سپرہٹ فلمیں تھیں۔”چھو منتر“ کا ایک گیت ”برے نصیب میرے ویری ہویا پیار میرا، نظر ملا کے کوئی لے گیا قرار میرا“ اس زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا۔
فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی، نگار اور بولان ایوارڈز سے بھی نوازا گیا تھا۔
پنجابی ادب میں احمد راہی کا سب سے بڑا کارنامہ ان کی نظموں کا مجموعہ ”ترنجن“ ہے جو 1952ء میں شائع ہوا تھا جس میں تقسیم ہند کے وقت ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا تھا۔”ترنجن“ کا انگریزی ترجمہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا تھا۔ان کے دیگر شعری مجموعوں میں نمی نمی وا اور رُت آئے رُت جائے شامل ہیں۔

Browse More Articles of Music