اردو زبان کے ممتاز شاعر اور صداکار زیڈ اے بخاری کی 50ویں برسی کل منا ئی گئی

ہفتہ 12 جولائی 2025 15:43

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جولائی2025ء) اردو زبان کے ممتاز شاعر اور صداکار زیڈ اے بخاری کی50ویں برسی کل منا ئی گئی ۔زیڈ اے بخاری کا پورا نام ذوالفقار علی بخاری تھا۔ وہ6جولائی 1904میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کو بچپن ہی سے سٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا شوق تھا اور انہوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد تحسین حاصل کی۔

اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی وہ خود ہی تھے۔1936میں جب آل انڈیا ریڈیو کے قیام کے بعد وہ ریڈیو سے منسلک ہوگئے پھران کا یہ ساتھ زندگی بھر جاری رہا اور زیڈ اے بخاری اور ریڈیو ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے۔1938 میں وہ تربیت کیلئے لندن گئے۔ 1940میں وہ جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل لندن سے منسلک ہوئے اور اسی زمانے میں انہوں نے بی بی سی سے اردو سروس بھی شروع کی۔

(جاری ہے)

لندن سے واپس آکر زیڈ اے بخاری بمبئی اور کلکتہ ریڈیو سٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ نومبر 1967میں کراچی میں ٹیلی ویژن سٹیشن قائم ہوا تووہ اس کے پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔زیڈ اے بخاری کو شعر و ادب سے شغف ورثے میں ملا تھا۔ ان کے والد اسد اللہ شاہ بخاری صاحبِ دیوان نعت گو شاعر تھے۔

بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب اور ماہر تعلیم تھے۔ ان کو ابتدا ہی سے اچھے شاعروں کی صحبت میسر آئی جن میں حسرت موہانی، علامہ اقبال، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی اور وحشت کلکتوی جیسے اساتذہ فن شامل تھے۔ انہوں نے عربی میں مولانا عبدالعزیز میمن اور فارسی میں مولانا شاداب بلگرامی سے کسبِ فیض کیا۔ زیڈ اے بخاری ایک اعلیٰ ماہر نشریات ہی نہیں بلکہ ایک بلند پایہ صداکار بھی تھے۔

انہوں نے بمبئی میں بمبئے خان بن کر اور کراچی میں جمعہ خان جمعہ بن کر صدا کاری کے جوہردکھائے جو سننے والوں کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔انہوں نے ریڈیو کے متعدد ڈراموں میں بھی صداکاری کی جن میں سب سے زیادہ شہرت ’’لائٹ ہاؤس کے محافظ‘‘ نے حاصل کی۔ مرثیہ خوانی اور شعر خوانی میں بھی ان کا انداز یکتا تھا۔ وہ خود بھی شعر کہتے تھے اور موسیقی سے بھی گہرا شغف رکھتے تھے۔

زیڈ اے بخاری فارسی، اردو، پنجابی، پشتو، بنگالی، برمی اور انگریزی زبان پر مکمل عبور رکھتے تھے اور یوں ہفت زباں کہلائے۔انہوں نے اپنے حالاتِ زندگی ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیے جو اردو کے نثری ادب کا گراں قدر سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مختلف راگوں اور راگنیوں پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی یادگار چھوڑی ہے ۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی پطرس بخاری کی یاد میں ایک کتاب ’’بھائی بھائی‘‘ کے نام سے لکھنی شروع کی تھی لیکن یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی البتہ ان کا مجموعہ کلام ’’میں نے جو کچھ بھی کہا‘‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکا ہے۔

زیڈ اے بخاری 12 جولائی 1975 کو کراچی میں انتقال کر گئے اور سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔زیڈ اے بخاری کی برسی کے موقع پر علمی و ادبی حلقوں اور شوبز انڈسٹری کے زیر اہتمام مختلف تقریبات میں ان کی خدمات پر خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
وقت اشاعت : 12/07/2025 - 15:43:30

مزید متعلقہ خبریں پڑھئیے‎ :