کنوار پن کے کیپسول فروخت کرنے پر ایمزون انڈیا کو شدید تنقید کا سامنا

Ameen Akbar امین اکبر پیر 18 نومبر 2019 23:53

کنوار پن کے کیپسول فروخت کرنے پر ایمزون  انڈیا کو شدید تنقید کا سامنا
ایمزون انڈیا  کو اپنے آن لائن سٹور پر جعلی کنوار پن ظاہر کرنے والے کیپسول فروخت کرنے  پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ایمزون پر فروخت  ہونے والی آئی -ورجن(i-virgin) نامی پراڈکٹ کسی نا معلوم بلڈ  پاؤڈر کے چھوٹے کیسپولز پر مشتمل ہے۔
اس پراڈکٹ کو بنانے والے نے بتایا کہ  یہ پاؤڈر حل پذیر ہے اور صحت کے لیے کسی بھی طرح نقصان دہ نہیں ہے۔

ایمزون انڈیا پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ  ایک ایسے معاشرے میں جعلی کنوار پن ظاہر کرنے والے  کیپسول فروخت کررہا ہے، جہاں کنوار پن کو حد سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
بھارت کے مخصوص علاقوں  میں  لڑکیوں کی شادی کے لیے کنوار پن کے ٹسٹ کو کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔ کچھ علاقوں میں اسے زندگی اور موت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔

(جاری ہے)

شادی  کی پہلی رات کے بعد دلہا کے رشتے  دار باقاعدہ بستر کی چادریں چیک کرتے ہیں۔

اگر دلہن  کنوار پن کے ٹسٹ میں فیل ہو جائے تو اس کے خاندان کو بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے۔کچھ کیس میں  تو دلہن کو آگ پر چل کر یا مخصوص مدت کے لیے پانی کے اندر سر ڈبو کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا پڑتا ہے۔
انٹرنیٹ پر بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے معاشرے میں، جہاں   کنوار پن  ہی دلہن کی اہمیت  کا تعین کرتا ہے، اس طرح کے کیپسول فروخت کرنا  اِن فرسودہ رسومات کو سہارا دینا ہے لیکن کچھ صارفین کا کہنا ہے کہ  کنوار پن کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنانے والا معاشرہ  ہی  خوف کی شکار کنواری  خواتین کو  اس طرح کی مصنوعات خریدنے پر مجبور کرتا ہے۔


صرف بھارت ہی نہیں بلکہ اکثر عرب اور مسلمان ممالک میں بہت سی لڑکیوں کو شادی سے پہلے کنوار پن کا ٹیسٹ کرانا پڑتا ہے، جس کے بعد دلہن بننے والی لڑکی کو ایک سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے جس میں تصدیق کی جاتی ہے کہ وہ کنواری ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ ماضی میں انڈونیشیا اور کچھ عرب ممالک کی مذمت کر چکی ہے کہ ان کے ہاں لڑکیوں کے ’کنورا پن کے جو ٹیسٹ‘ کیے جاتے ہیں ان میں خواتین کو درد سے گزرنا پڑتا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے سنہ 2014 کی رپورٹ میں کنور پن چیک کرنے کے مروجہ طریقے کو ’صنفی تشدد، خواتین کے خلاف غیر انسانی تفریق اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی‘ قرار دیا تھا۔
بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق وہ ممالک جہاں اس قسم کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ان میں انڈیا، افغانستان، بنگلہ دیش، ایران، مصر، اردن، لبیا، مراکش سمیت کچھ عرب ممالک اور جنوبی افریقہ سرفہرست ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق مصر،مراکش، اردن اور لبیا میں یہ ٹیسٹ سب سے زیادہ عام ہیں۔اس رپوٹ کے جواب میں مراکش اور مصر کے حکام نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہے اور اگر ایسا ہو رہا ہے تو خفیہ طور پر کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ضروری نہیں کہ شادی کی رات  تمام خواتین کو خون نکلے اور ہرخاتون کا پردۂ بکارت ایک جیسا  نہیں ہوتا۔

کچھ خواتین کے پردۂ بکارت تک رسائی صرف آپریشن کے ذریعہ ممکن ہوتی ہے، کچھ خواتین کے معاملے میں یہ اتنا نازک ہوتا ہے کہ خون نکلے بغیر ٹوٹ جاتا ہے، اور کچھ لڑکیوں کی پیدائش کے وقت یہ ہوتا ہی نہیں یا بچپن میں چوٹ لگنے سے بھی یہ  ٹوٹ جاتا ہے۔
یاد رہے کہ ایمزون اسی طرح کی مصنوعات  جرمن کمپنی ورجن کیئر کے ساتھ مل کر  یورپی سٹورز میں بھی فروخت کر رہا ہے۔اسی طرح کے کیسپول چینی  سٹور علی بابا پر بھی دستیاب ہیں۔رپورٹ کےمطابق آئی -ورجن کیسپولز 3600 بھارتی روپے یا 50 ڈالر میں فروخت کیے جا  رہے تھے لیکن اس وقت ایمزون انڈیا نے اس پراڈکٹ کو اپنے سٹور سے ہٹا دیا ہے۔

Browse Latest Weird News in Urdu