Azdahay Ka Shikar - Article No. 976

Azdahay Ka Shikar

اژد ہے کا شکار - تحریر نمبر 976

مچھلی کے شکار کے لیے ہم دریا کہ کنارے کانٹے ، ڈوریاں پانی میں ڈالے اور بنسیاں تھا مے بیٹھے تھے۔ یہاں ساتھ ساتھ تین درخت تھے جن سے ٹیک لگائے ہم تین دوست بیٹھے تھے ۔ ہمیں ادھر آتے دیکھ کر کئی لوگوں نے منع کیا کہ اُدھر نہ جاؤ، وہاں ایک اژدہا دیکھا گیا ہے ۔

جمعہ 9 دسمبر 2016

جاوید اقبال :
مچھلی کے شکار کے لیے ہم دریا کہ کنارے کانٹے ، ڈوریاں پانی میں ڈالے اور بنسیاں تھا مے بیٹھے تھے۔ یہاں ساتھ ساتھ تین درخت تھے جن سے ٹیک لگائے ہم تین دوست بیٹھے تھے ۔ ہمیں ادھر آتے دیکھ کر کئی لوگوں نے منع کیا کہ اُدھر نہ جاؤ، وہاں ایک اژدہا دیکھا گیا ہے ۔
ہم نے سنی اَن سنی کردی اور یہاں آبیٹھے ۔
خالد نے کہا : ہم اسی لیے تو یہاں آئے ہیں۔ اژد ہے کہ خوف سے مچھلیوں کے شکاری اس طرف نہیں آتے اور یہاں خوب مچھلیاں ملتی ہیں اور پھر ہمارے پاس یہ بندوق بھی تو ہے ۔ اس نے تھیلے میں پڑی بندوق کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
اس وقت شامل ڈھل چکی تھی اور چاند نکل آیا تھا۔ آسمان پہ چاند ستاروں کا کارواں رواں دواں تھا۔ دریا کے پانی میں چاند ستارے یوں جھلملارہے تھے جیسے جگنوؤں لہروں اور دائروں میں تحلیل ہوگئے ۔

(جاری ہے)

ہم کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔
ہش ۔ خالد نے ہمیں خبردار کیا : کیا اژد ہے کو یہاں بلانے کا ارادہ ہے ۔ ہم ایک دم محتام ہوگئے ۔ احمد نے بندوق میں گولیاں بھر لیں اور ہم لہروں پہ نظریں جمائے مچھلیوں کا انتظار کرنے لگے ۔ کافی دیر بعد میری ڈوری میں ہلچل ہوئی۔ میں نے مضبوطی سے اسٹک پکڑ کر ڈوری کھینچی تو دیکھا کہ وہ تقریباََ ایک کلووزنی مچھلی تھی ۔
اس کے بعد ہم نے چارمچھلیوں اور پکڑلیں، آج ہمارا ارادہ تھیلا بھر کے مچھلیاں لے جانے کا تھا اس لیے ہم مزید مچھلیوں کاانتظار کرنے لگے ۔
چاندنی رات اور ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے ہم پرسستی سی چھاگئی تھی ، لیکن اژد ہے کہ خوف سے ہم بار بار سنبھل جاتے، مگر آخر نیند ہم پرحاوی ہوگئی اور ہم اسٹک تھامے اونگنے لگے ۔
جانے رات کا کون ساپہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی ۔
سینے پہ سخت دباؤ محسوس ہورہا تھا۔ میں ذرا بھی حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا پھر اچانک مجھ پر یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ اژد ہے نے میرے جسم کے گردبل ڈال کر مجھے اپنی گرفت میں جکڑرکھا ہے ۔ اب میری آنکھیں پوری طرح کھل گئی تھیں۔ میں ا ژد ہے کاحرکت کرتا ہوا سردیکھ سکتا تھا۔ اژد ہے کا خوف ناک چہرہ اپنے اتنے قریب دیکھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے ۔
ہاتھ پاؤں کو حرکت دینا تواک طرف ، مجھ میں پلک جھپکنے کی سکت نہ تھی ۔ اژدہا آہستہ آہستہ اپنی گرفت مضبوط کررہاتھا۔ شاید وہ مجھے بے دم کرکے سالم ہی نکلناچاہتا تھا۔
میں نے نظر ترچھی کرکے اپنے دوستوں کی طرف دیکھا ۔ وہ میری حالت سے بے خبراونگھ رہے تھے ۔ میں سوچنے لگا کہ دوستوں کو کیسے اپنی طرف متوجہ کروں، کیوں کہ ذرآواز نکلی تو اژدہا مشتعل ہوکر مجھے نکل جائے گا۔

لمحے گھنٹوں کی طرح گزررہے تھے ۔ اژد ہے سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آرہی تھی ۔ اچانک میں نے احمد کی اسٹک کو ہلتے دیکھا ۔ شاید کوئی مچھلی کانٹے میں پھنس گئی تھی ۔ احمد نے چونک کر آنکھیں کھول دیں اور ڈوری اسٹک کی چرخی پرلپیٹنے لگا۔ پھر ایک بڑی مچھلی کانٹے میں پھنسی نظرآئی۔ اتنی بڑی مچھلی دیکھ کر خوشی سے بے قابو ہوکر اس نے مجھے بتانے کے لیے میری طرف دیکھا اور پھر خوف سے اس کی آنکھیں پتھراگئیں۔
اس نے خالد کو جھنجوڑ کر میری طرف متوجہ کیا۔ خالد بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھنے لگا پھر وہ دونوں آہستہ آہستہ اس جگہ سے دور کھسکنے لگے ۔
مجھیموت کے منھ میں چھوڑ کر میرے دوست مجھ سے دورجارہے تھے ۔ ان کے اس طرز عمل پر میں حیران رہ گیا۔ اب میری پوری توجہ اژد ہے کہ طرف ہوگئی ۔ وہ کچھ بے چین نظر آرہا تھا۔ اچانک اس نے اپنا سر گھمایا اور اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے آگیا۔
اس کی شعلے برساتی آنکھیں مجھ پر جم گئیں ۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری رگوں میں خون کی گردش رک گئی ہو۔ اژد ہے کا گھیراتنگ ہونے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ ابھی میرا دم گھٹ جائے گا۔ پھراژد ہے نے مجھے نگلنے کے لیے اپنا بڑا سامنھ کھولااس کے خوف ناک دانت چاندنی میں چمکے میں نے دہشت سے آنکھیں بندکرلیں۔ اسی وقت کا دن پھاڑدینے والا ایک دھماکا ہوا، پھر مجھے اپنا کچھ ہوش نہ رہا۔

جب مجھے ہوش آیا تو میرے دوست میرے منھ پر پانی کے چھینٹے ماررہے تھے ۔ میں نے اُٹھ کر اس طرف دیکھا ، جہاں کچھ دیر پہلے میں بیٹھا تھا۔ اب وہاں اژد ہے کہ لاش پڑی تھی ۔ اس کی کھوپڑی کے پرخچے اڑگئے تھے۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ دانستہ پیچھے ہٹے تھے، تاکہ اژدہامشتعل ہوکر مجھے نقصان نہ پہنچادے ، پھر جیسے ہی اس کا سر ان کے نشانے پرآیا ، انھوں نے اس کاکام تمام کردیا۔

Browse More Moral Stories