Adab Ittefal Ka Ubharta Hua Sitara - Raj Mohammad Afridi - Article No. 2557

Adab Ittefal Ka Ubharta Hua Sitara - Raj Mohammad Afridi

”ادب اطفال کا اُبھرتا ہوا ستارہ۔ راج محمد آفریدی“ - تحریر نمبر 2557

اگر اس کتاب ” سورج کی سیر“میں شامل چند کہانیوں پر نظر ڈالیں تو راج محمد آفریدی کا قلم ہر کہانی سے انصاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔

ذوالفقار علی بخاری ہفتہ 12 جون 2021

ایک ایسا خطہ جہاں پر ادب اطفال کے حوالے سے بے حد کم کام ہو رہا ہے وہاں سے راج محمد آفریدی کا سامنے آناخوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ ہمارے ہاں نوجوان لکھاریوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کرنے کا رجحان کم ہے ، اس وجہ سے بھی بہت کم لکھاری” صاحب کتاب“ہوتے ہیں کہ ان کے لکھے کو خوب پذیرائی نہیں ملتی ہے مگر راج محمد آفریدی کے حوصلے کو داد دیتا ہوں کہ وہ ایک جذبے کے ساتھ بچوں کے ادب کے لئے کام کر رہا ہے۔

بچوں کے ادب کو آج کے تقاضوں کے مطابق تو ہونا چاہے مگر ان کی اصلاح ایسے انداز میں کرنا کہ وہ خود سے بہت کچھ سمجھ جائیں بے حد مشکل کام ہے ، لیکن راج محمد آفریدی نے زیر نظر کتاب ” سورج کی سیر“ میں بے حد دل چسپ اور عمدہ انداز میں اپنی سوچ کو بیان کیا ہے اوربچوں کی تربیت کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ہے جو میری نظر میں ایک بہترین کوشش ہے۔

(جاری ہے)


اگر اس کتاب ” سورج کی سیر“میں شامل چند کہانیوں پر نظر ڈالیں تو راج محمد آفریدی کا قلم ہر کہانی سے انصاف کرتا دکھائی دیتا ہے۔
” قربانی“ ایک بے حد حساس موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے اور میرے خیال میں یہ کہانی اس کتاب کی سب سے بہترین کہانی میں شمار ہوتی ہے جو کہ یہ ظاہر کر رہی ہے کہ والدین کس قدر بچوں کے لئے قربانیاں دے کر ان کی پرورش کرتے ہیں مگر جب ان کی خدمت کا وقت آتا ہے تو پھر وہ اپنے فرائض کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ ان کو اس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ کوئی ان کے لئے کس قدر قربانی دے رہا ہے۔
راج محمد آفریدی نے یہ اہم نکتہ بچوں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آپ کے لئے کوئی اگر اچھا کر رہا ہے تو اس کی قدر کرنی چاہیے۔”وقت کی رضامندی“یہ کہانی اپنے نام کی مانند بے حد دل چسپ ہے۔بچوں کو وقت کی اہمیت کے حوالے سے آگاہ کرنے کے لئے راج محمد آفریدی نے خوب صورت کہانی پیش کی ہے ۔ہمارے ہاں اکثر بچے امتحانات کے دنوں میں اور اُس سے پہلے بھی وقت کو ضائع کرتے ہیں، یہ کہانی ان کو سمجھاتی ہے کہ اگر آپ وقت کی رضامندی حاصل کرلیں یعنی وقت کے ساتھ چلیں تو پھر بڑی کامیابیاں آپ کا مقدر بن جاتی ہیں۔

” الہ دین کا چراغ“ یہ نام تو سب نے سن رکھا ہے مگر راج محمد آفریدی نے اس کہانی میں بے حد منفرد پیغام دیا ہے جو کہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا سب سے اہم ہے جس میں سب سے ضروری نماز کی ادائیگی ہے جس کے بارے میں سات سو زائد بار قرآن مجید میں حکم بھی آچکا ہے۔یہ کہانی یقینی طور پر پڑھنے والوں کومدتوں یاد رہے گی۔
” انوکھی سزا“ ایک ایسی کہانی ہے جس میں یہ درس دیا گیا ہے کہ اگر آپ کسی کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو محبت سے کسی کے دل میں اپنی جگہ بنانی ہے۔راج محمد آفریدی نے اس مختصر سی کہانی میں ایک بڑا پیغام دیا ہے کہ ہمیں معاف کرنے کی عادت کو اپنانے کی ضرورت ہے جب ہم معافی دیتے ہیں اورمحبت سے برتاؤ کرتے ہیں تو پھر بگاڑ درست کیا جا سکتا ہے۔
” کھلونا بندوق“ یہ کہانی قلم کی طاقت کوبخوبی ظاہر کرتی ہے کہ قلم سے بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں اسلحے کی نمائش تو خوب کی جاتی ہے مگر قلم کی اہمیت کے حوالے سے بہت کم آگاہی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے آج بھی لاکھوں بچے اپنا نام تک لکھنے سے قاصر ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے قلم سے دوری اختیار کرلی ہے جس کی وجہ سے ہم پڑھنے لکھنے سے بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ کہانی بندوق کے جہاں نقصانات کو بیان کرتی ہے وہی یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ بندوق سے نکلنے والی گولی سے زیادہ خطرناک قلم ہے اگریہ درست طور پر چلایا جائے تو پھر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے۔
” سورج کی سیر“ ایک خواب سے شروع ہونے والی معلوماتی کہانی ہے جو خواب اورحقیقت کے درمیان فرق کو بھی سمجھاتی ہے۔ اس کہانی کا مرکزی خیال بے حدمنفرد ہے جو قاری کو آخر تک اپنی جکڑ میں لیے رکھتا ہے اس کہانی کا اختتام بھی قاری کو چونکا دیتا ہے۔
”سپائیڈرمین بننا“ یہ کہانی بچوں کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے راج محمد آفریدی نے خوب صورت انداز میں بیان کی ہے اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں اپنے آپ پر یقین کامل ہونا چاہیے کہ ہم سب سے بہترین ہیں، دوسروں جیسا بننے کی کوشش کرنے میں اکثر نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔”احسان کا بدلہ احسان“یہ کہانی نام سے ہی اپنے پیغام کو واضح کر رہی ہے آج کے دور میں بچوں کو یہ بات سمجھانا بے حد ضروری ہے کہ جب آپ دوسروں کے ساتھ اچھا کرتے ہیں تو آپ کے ساتھ بھی اچھائی ہوتی ہے۔
بچوں کو اس طرح کی کہانیاں آج پڑھوانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں بھلائی کو فروغ دیا جا سکے۔
”مصلحت “ یہ کہانی بے شمار اسرار لئے ہوئے ہے ، یہ کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب ہم کچھ کرتے ہیں اور ہمارے ساتھ کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے تواس کے پیچھے چھپی حکمت اگر ہمیں معلوم ہو جائے تو ہمارے بے شمار مسائل کم ہو جائیں، بچے اکثر ضد کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ ان کی ضدکتنا کچھ غلط کروا سکتی ہے تو یہ کہانی لکھ کر راج محمد آفریدی نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے ۔
ایک اچھا لکھاری معاشرے میں بگاڑ کو اصلاحی کہانیاں لکھ کر ہی ٹھیک کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور اس میں راج محمد آفریدی بڑی حد تک کامیاب ہو چکا ہے۔
راج محمد آفریدی بے حد ادب کرنے والا شخص ہے اور آج کے دور میں ایک ادیب کے لئے با ادب ہونا بے حد ضروری ہے کہ یہی بڑے ادیبوں کی نشانی ہوتی ہے اوریہ چیز کسی بھی لکھاری کی شناخت کا سبب بھی ہوتی ہے ۔آپ کے ہاتھوں میں آئی کتاب راج محمد آفریدی کی اولین کتاب ہے، میری خواہش ہے کہ یوں ہی محنت اورلگن کے ساتھ لکھتارہے اور خوب نام کمائے۔

Browse More Urdu Literature Articles