Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar - Article No. 2574

Mohammad Farooq Azmi Ka PurAzam Aur PurTaseer Qalmi Safar

محمد فاروق عزمی کا پرعزم اور پر تاثیر قلمی سفر - تحریر نمبر 2574

مسلمانوں کی ” قتل گاہ برما“ کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی اس کتاب کے ابتدائیہ میں آپ ” عرضِ مصنف“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ” قتل عام ہو رہا تھا ، گھر جلائے جا رہے تھے، بچوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا تھا

Luqman Asad لقمان اسد ہفتہ 6 نومبر 2021

محمد فاروق عزمی درد مند دل رکھنے والی ایک خوب صورت انسان دوست علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ آپ کے قلم سے صفحہٴ قرطاس پر اترنے والے الفاظ اتنے موثر اور گہرائی سے بھرپور ہوتے ہیں کہ قاری وجد میں ڈوب جاتا ہے۔ آج سے تین چار برس قبل جب ” برما“ (روہنگیا) کے مسلمانوں پر وہاں کی حکومت ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑ رہی تھی تو انھوں نے مسلم امہ کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس اہم اور حساس ایشو کو موضوع سخن بنایا ۔
گویا جب ہم لوگ خواب غفلت میں محو تھے تو انھوں نے ہمیں جگانے کی سعی کی ۔ یوں تو بہت سے لکھاریوں نے اس عنوان پر آرٹیکلز اور مضامین تحریر کیے لیکن فاروق عزمی نے برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے تاریخ کے بدترین مظالم پر ایک مکمل کتاب تحریر کی جو سال 2019ءء میں چھپ کر مارکیٹ میں آئی ۔

(جاری ہے)

مسلمانوں کی ” قتل گاہ برما“ کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی اس کتاب کے ابتدائیہ میں آپ ” عرضِ مصنف“ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ ” قتل عام ہو رہا تھا ، گھر جلائے جا رہے تھے، بچوں کو بے دردی سے شہید کیا جا رہا تھا ، عورتوں کو برہنہ کر کے ان کی عصمتیں تار تار کر کے درختوں اور بانسوں کے ساتھ باندھ کر زندہ جلایا جا رہا تھا ، دو اڑھائی سال کے ننھے منھے اور معصوم بچوں پر پورا وزن ڈال کر کھڑے ہو جانا اور اس وقت تک کھڑے رہنا جب تک وہ تڑپ تڑپ کر مر نہ جاتے ۔

نوجوانوں کو زندہ دفن کیا جا رہا تھا ، لیکن ہر طرف خاموشی تھی ، دنیا اپنی مستی میں مست تھی ، چھوٹے ، چھوٹے معمولی واقعات کو ”بریکنگ نیوز“ کے طور پر سارا سارا دن نشر کرنے والا الیکٹرانک میڈیا چپ سادھے ہوئے تھا اور برما کی صورت حال پر کہیں سے خبر نہیں آرہی تھی ۔ پھر جانے کیسے سوشل میڈیا پر ظلم و ستم کی فلمیں (ویڈیوز) وائرل ہونے لگیں، جبر اور سفاکیت کی تصاویر پوسٹ ہونے لگیں اوردل دہلا دینے والے مناظر جنھیں دیکھنا بھی گویا دل گردے کا کام تھا۔
تب کہیں سوئی ہوئی انسانیت کے خوابیدہ ضمیر انگڑائی لے کربیدار ہوئے اور پوچھنا شروع کیا ، یہ میانمار کہاں ہے؟ برما کس جگہ واقع ہے ، کیا برما کا نام ہی میانمار ہے، روہنگیا کون ہیں؟ مسلمان ہیں تو انھیں قتل کیوں کیا جا رہا ہے ، ان پر وحشیانہ تشدد کرنے والے کون ہیں ، اصل مسئلہ کیا ہے، چھوٹے، چھوٹے بچے کیوں ذبح کیے جا رہے ہیں اور یہ لاکھوں لوگ بے سروسامانی کے عالم میں کہاں جارہے ہیں ، کیوں ہجرت پر مجبور ہیں ؟ میں نے بھی دل پر جبر کر کے اس ظلم کی چند ساکت تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھیں ، روح کانپ اٹھی ، اتنی سفاکیت ، اتنا ظلم ، مجھے یاد آیا کہ برما کا نام بچپن سے اپنے گھر میں سنتے آئے تھے ۔
میرے والد اور تایا ابو اکثر اپنے برما میں قیام کا ذکر کرتے ، قیام پاکستان سے قبل ابا جی فوج کی ملازمت کے دوران برما میں تعینات رہے ۔ کسی زمانے میں آل انڈیا ریڈیوسے ایک گانا نشر ہوتا تھا ”میرے پیا گئے ہیں رنگوں ، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون ، تمھاری یاد ستاتی ہے “ پشاور سے ایک ریلوے لائن رنگوں تک بچھائی گئی اور ایک ریل گاڑی پرانے وقتوں میں مسافروں کو لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی رنگوں تک جاتی تھی ، تاریخ کو کھنگالنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ برما کے صوبہ ” اراکان“ کے روہنگیائی مسلمانوں کی قیادت نے 1946ءء میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی اور انھیں صوبہ اراکان کو مغربی بنگال کا حصہ ہونے کی بنا پر مشرقی بنگال میں ممکنہ تشکیل پانے والی مسلمان ریاست (پاکستان) کے مشرقی بازو کا حصہ بنانے کی درخواست کی لیکن انگریزوں کی بدنیتی اور اس وقت کے برما کے فوجی جنرل سے انگریزوں کے گٹھ جوڑ نے برما کو مشرقی پاکستان کا حصہ نہ بننے دیا ۔
اسی برما میں تاریخ عالم کا بدترین قتل عام اور تشدد جاری ہے ، میں نے یہ کتاب بے حد دکھی دل کے ساتھ مرتب کی ہے ، میں برما کے دلدوز واقعات پر کبھی پہروں سکتے کی کیفیت میں رہا ہوں تو کبھی رویا اور کبھی تڑپا ہوں ۔ ” سب سے زیادہ سوئی ہوئی اقلیت “کے عنوان سے محمد فاروق عزمی رقم طراز ہیں ” امن کا نوبل انعام پانے والی ” آنگ سانگ سُوچی“ کی ناک کے عین نیچے روہنگیا جل رہا ہے ، مر رہا ہے ، کٹ رہا ہے ، بین الاقوامی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت تک نہیں اور محترمہ ” سُوچی “ خاموش تماشائی ہیں “۔
جس طرح کتاب کے دیباچہ میں محمد فاروق عزمی نے لکھا کہ برما میں ہونے والے مظالم کی ویڈیوز کو دیکھنا دل گردے کا کام ہے عین اسی طرح ان واقعات کو جس دکھی دل کے ساتھ فاروق عزمی نے الفاظ کو آنسوؤں کے رنگ میں صفحہٴ قرطاس پر رقم کیا ہے کتاب کا مطالعہ کرنا بھی واقعتاََ ایک صبر آزما کام ہے ۔ میں نے کئی بار کتاب کا مطالعہ شروع کیا لیکن میرا حوصلہ میرا ساتھ چھوڑ دیتا اور ابھی تک میں اس کتاب کا مکمل مطالعہ کرنے سے قاصر ہوں ۔
آپ نے جس انداز میں برما کے مسلمانوں کا ” مقدمہ“ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے یقینی طور پر ان کا یہ کارنامہ قابل داد اور لائقِ صد تحسین ہے ۔ محمد فاروق عزمی 14 مئی 1959ءء کو گجرات کے قصبہ ” لادیاں“ میں محمد خان کے ہاں پیدا ہوئے ۔وطن عزیز کے نام ور بہادر اور جری سپوت میجر عزیز بھٹی شہید کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا۔ گجر قبیلہ سے تعلق رکھنے والے مصنف کی اب تک تین کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں جن میں ” مسلمانوں کی قتل گاہ برما“ ” سانحہ احمد پور شرقیہ اور”رقصِ بسمل“ شامل ہیں ۔ آپ کا قلمی سفر جاری و ساری ہے دعا ہے کہ وہ یوں ہی اسی عزم و ہمت کے ساتھ دکھی انسانوں کے درد کو لفظوں اور حرفوں کا روپ دے کرتادیر اپنا قلمی جہاد جاری رکھیں۔

Browse More Urdu Literature Articles