BeesweeN Raat - Article No. 1632

BeesweeN Raat

بیسویں رات - تحریر نمبر 1632

خلیفہ کا فرستادہ اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ خلیفہ بے حد غصے میں ہے اور مجھے تیرے لانے کے لیے بھیجا ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ وہ تجھے شام سے پہلے پھانسی دے دے گا

منگل 19 دسمبر 2017

جب بیسویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ خلیفہ نے قسم کھا کر کہا کہ وہ سوائے غلام کے اور کسی کو پھانسی نہ دے گا۔ کیونکہ جوان معذور تھا. پھر اس نے جعفر کی طرف متوجہ ہوکر کہا کہ اس ملعون غلام کو میرے سامنے حاضر کر‘ جس کی وجہ سے یہ معاملہ چلا ہے‘ اور اگر تو اسے حاضر نہ کرے گا تو پھر اس کی جگہ تو ہوگا۔ جعفر وہاں سے روانہ ہوا اور رو رو کر کہتا تھا کہ دو موتیں تو میرے سامنے آچکی ہیں اور مثل ہے کہ گھڑا ہر بار کنوئیں سے ثابت نہیں نکلتا۔

اس میں تدبیریں نکالنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ جس نے مجھے پہلی بار بچایا ہے‘ وہی اس بار بھی بچائے گا، خدا کی قسم کہ میں تین دن تک اپنے گھر سے نہ نکلوں گا اور خدا کی جو مرضی ہوگی‘ وہ ہوگا۔ تین دن تک وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہا اور چوتھے دن قاضیوں اور گواہوں کو بلایا اوراپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے رخصت ہوکر رونے لگا۔

(جاری ہے)

اتنے میں خلیفہ کا فرستادہ اس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا کہ خلیفہ بے حد غصے میں ہے اور مجھے تیرے لانے کے لیے بھیجا ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ وہ تجھے شام سے پہلے پھانسی دے دے گا۔

جب جعفر نے یہ سنا تو وہ رونے لگا اور اس کے ساتھ اس کے بیٹے، بیٹیاں اور غلام اور سارے گھر والے ماتم کرنے لگے۔ جب وہ سب سے رخصت ہوچکا تو اپنی چھوٹی بیٹی کے پاس گیا کہ اس سے رخصت ہولے کیونکہ وہ اسے تمام اولادوں سے زیادہ چاہتا تھا‘ جب اسے سینے سے لگایا اور اسے بوسہ دیا اور اس کی جدائی کی وجہ سے رونے لگا تو اس کی جیب میں کوئی گول سی چیز معلوم ہوئی۔

اس نے کہا کہ تیری جیب میں کیا ہے؟ اس نے کہا کہ ابا جان سیب ہے‘ جس پر ہمارے آقا خلیفہ کا نام لکھا ہوا ہے، ہمارا غلام ریحان اسے لایا ہے، وہ چار دن سے میرے پاس ہے‘ بغیر دو دینار لیے اس نے یہ سیب مجھے نہیں دیا۔
جب جعفر نے غلام اور سیب کا ماجرا سنا تو خوش ہوگیا اور اپنی بیٹی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ سیب نکال لیا اور پہچان گیا کہ وہ یہی سیب ہے اور کہنے لگا کہ خوشی قریب ہے۔
اب اس نے غلام کو بلانے کا حکم دیا اور وہ حاضر ہوا۔ جعفر نے کہا کہ حیف ہے تجھ پر اے ریحان، تجھے کہاں سے یہ سیب ملا؟ غلام نے کہا کہ اے آقا‘ خدا کی قسم اگر جھوٹ بولنے سے نجات مل سکتی ہے تو سچ بولنے سے تو اور بھی زیادہ نجات مل سکتی ہے۔ میں نے یہ سیب نہ تو تیرے محل سے چرایا ہے اور نہ امیر المومنین کے محل سے اور نہ اس کے باغ سے۔
واقعہ یہ ہے کہ پانچ دن ہوئے کہ میں شہر کی ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ بچے کھیل رہے ہیں اور ان میں سے ایک کے پاس یہ سیب ہے۔
میں نے طمانچہ مار کر اس سے یہ سیب چھین لیا اور وہ رونے لگا اور اس نے کہا کہ اے جوان یہ میری ماں کا سیب ہے، وہ بیمار ہے اور اس نے میرے باپ سے ایک سیب کی خواہس ظاہر کی تھی اوروہ بصرے جاکر اس کے لیے تین سیب تین دینار میں خرید لایا تھا۔ میں کھیلنے کے لیے ان میں سے ایک چرا لایا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگا لیکن میں نے اس کا کچھ خیال نہ کیا اور سیب کو لے کر چلا آیا اور چھوٹی بی بی نے دو سونے کے دینار دے کر اسے لے لیا۔
بس یہی میرا قصور ہے۔ جب جعفر نے یہ قصہ سنا تو اسے اچنبھا ہوگیا کیونکہ اسے معلوم ہوا کہ اس سارے فتنے اور لڑکی کے قتل ہونے کا بانی یہی میرا غلام ہے اور اس بات سے غمزدہ ہو کر غلام اس کی طرف منسوب ہے مگر اپنے چھٹکارے سے اسے خوشی ہوئی اور وہ یہ اشعار پڑھنے لگا:
"اگر تیرے اوپر غلام کی وجہ سے کوئی مصیبت آئے تو اسے اپنے اوپر فدا کردے کیونکہ نوکر تجھے بہت مل جائیں گے لیکن تیرا بدل نہیں ملنے کا۔

اب اس نے غلام کا ہاتھ پکڑا اور اسے خیلفہ کے پاس لے گیا اور اس سے سارا قصہ شروع سے کر آخر تک بیان کردیا۔ خلیفہ کو اس پر بڑا تعجب ہوا اور وہ ہنستے ہنستے لوٹ گیا اور اس نے حکم دیا کہ اس قصے کو قلمبند کرلیا جائے اور اسے لوگوں کے درمیان شائع کیا جائے۔ جعفر نے کہا کہ اے امیرالمومنین تعجب مت کر کیونکہ یہ کہانی نور الدین علی مصری اور اس کے بھائی شمس الدین محمد کی کہانی سے عجیب تر نہیں ہے۔
خلیفہ نے کہا کہ سنا۔ دیکھیں تو سہی کہ وہ کون سی کہانی ہے جو اس سے زیادہ عجیب و غریب ہے۔ جعفر نے کہا کہ اے امیر المومنین میں اسے محض اس ایک شرط پر بیان کردوںگا کہ تو میرے غلام کو قتل نہ کرے۔ اس نے کہا کہ اگر وہ اس ماجرے سے جس کا اتفاق ہمیں ہوا ہے، عجیب تر ہوگی تو میں تیری خاطر اس کا خون بخش دوں گا اور اگر اس سے عجیب نہ ہوئی تو تیرے غلام کو قتل کردوں گا۔

وزیر نورالدین اور اس کے بھائی کی کہانی:
جعفر نے کہا کہ اے امیر المومنین پرانے زمانے میں مصر میں ایک بادشاہ تھا جو انصاف پسند اور امن دوست تھا۔ فقیروں سے محبت کرتا اور عالموں سے ہم مجلس ہوتا تھا۔ اس کا ایک وزیر تھا جو بہت عاقل اور دانا اور حکمرانی اور سیاست میں یکتا تھا۔ وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور اس کے دو بیٹے تھے گویا وہ دو چاند تھے اور حسن و جمال میں بے نظیر تھے۔
بڑے کا نام شمس الدین محمد اور چھوٹے کا نورالدین علی تھا۔ چھوٹا خوبصورتی اور ملاحت میں بڑے سے زیادہ تھا‘ یہاں تک کہ دوسرے ملکوں کے لوگ اس کے حسن کا چرچا سن کر اس کے پاس آتے تھے تاکہ اس کے حسن کا نظارہ کریں۔ اب ایسااتفاق ہوا کہ ان کا باپ فوت ہوگیا اور سلطان کو اس کا بڑا رنج ہوا۔ اس نے دونوں بیٹوں کو بلا کر انہیں اپنا مقرب بنایا اور انہیں خلعتیں عطا کیں اور ان سے کہا کہ تم میرے پاس بمنزلہ اپنے باپ کے ہو لہٰذا پریشان خاطر مت ہو۔
وہ خوش ہوگئے اور انہوں نے اس کے سامنے زمین کو بوسہ دیا اور پورے ایک مہینے اپنے باپ کے سوگ میں رہے۔ اس کے بعد وہ وزیر کے عہدے پر آئے اور اسی طرح حکمرانی کرنے لگے جس طرح کہ ان کا باپ کرتا تھا اور جب کبھی بادشاہ سفر پر جاتا تو ان میں سے ایک اس کی مصاجت میں رہتا۔ ایک رات جبکہ بڑے بھائی کی سلطان کے ساتھ سفر کرنے کی باری تھی، یہ اتفاق پیش آیا کہ باتوں باتوں میں بڑے بھائی نے چھوٹے سے کہا کہ ہم دونوں کا بیاہ ایک ہی رات میں ہو۔
چھوٹے بھائی نے کہا کہ جیسا تیرا جی چاہتا ہے کر، مجھے تیرا کہنا منظور ہے۔ اس پر دونوں متفق ہوگئے، اس کے بعد بڑے بھائی نے چھوٹے سے کہا اگر خدا نے ایسا ہی کیا اور ہم دونوں نے دونوں بہنوں سے شادی کی اور ایک ہی رات ان کے ساتھ مجامعت کی اور ایک ہی دن دونوں بچے پیدا ہوئے اور خدا کو منظور ہوا کہ تیری بیوی کے لڑکا پیدا ہو اور میری بیوی کے لڑکی تو ہم ان دونوں کا بیاہ آپس میں کردیں گے کیونکہ وہ چچیرے بھائی بہن ہوں گے۔

نور الدین نے کہا کہ بھائی یہ تو بتا تو میرے بیٹے سے اپنی بیٹی کا کتنا مہر لے گا؟ اس نے جواب دیا کہ میں تیرے بیٹے سے اپنی بیٹی کے لیے تین ہزار دینار اور تین باغ اورتین جاگیریں لوں گا اور اگر لڑکے نے اس سے کم معاہدے میں لکھا تو یہ نہ مانا جائے گا۔ جب نورالدین نے یہ بات سنی تو کہنے لگا کہ یہ بھی کوئی مہر ہے‘ جس کی شرط تو میرے بیٹے سے کرنا چاہتا ہے۔
تجھے معلوم نہیں کہ ہم بھائی بھائی ہیں اور خدا کے فضل سے ہم دونوں وزیر ہیں اور ہم دونوں کا ایک سا رتبہ ہے؟ تجھے تو یہ لازم ہے کہ تو اپنی بیٹی میرے بیٹے کو بغیر مہر دے اور اگر مہر کا ہونا لابدی ہے تو تھوڑا سا مہر مقرر کر لیجیو تاکہ لوگ جان جائیں کہ مہر بندھا ہے۔ تجھے معلوم ہے کہ لڑکا لڑکی سے بہتر ہوتا ہے اور میرا لڑکا ہے اور لڑکے سے ہمارا نام چلے گا نہ کہ تیری لڑکی سے۔
اس نے بھی پوچھا تو پھر اس سے کیا ہوگا؟ نورالدین نے جواب دیا کہ اس کی وجہ سے امراء میں ہمارا نام ہوگا۔ لیکن تو چاہتا ہے کہ میرے ساتھ وہ معاملہ کرے جو اس شخص کے ساتھ کیا گیا تھا جو اپنے ایک دوست کے پاس ایک حاجت لے کر آیا تھا تو اس نے جواب دیا کہ بسم اللہ۔ میں تیری حاجت پوری کردوں گا لیکن کل۔ اس شخص نے جواب میں یہ شعر پڑھا:
”اگر تجھے کوئی حاجت پیش آجائے اور حاجت روا کرنے والا کہے کل تک ٹھہر جا تو اگر تو سمجھدار ہے تو سمجھ جا کہ اس کے معنی انکار کے ہیں۔

شمس الدین نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ تو میری ہتک کررہا ہے اور اپنے بیٹے کو میری بیٹی پر ترجیح دیتا ہے۔ بیشک تو ناسمجھ ہے اور اخلاق سے مبرا۔ تو وزرات میں شرکت کا ذکر کرتا ہے مگر تجھے معلوم نہیں کہ میں نے تجھ پر مہربانی کی ہے کہ تجھے اپنے ساتھ وزرات میں شریک کرلیا ہے تاکہ تو میری مدد کرے اور میرا معین ہو اور تیری دل شکنی نہ ہو۔
اب چونکہ تو ایسی باتیں کرتا ہے‘ خدا کی قسم میں اپنی بیٹی کی شادی تیرے بیٹے سے ہرگز نہ کروں گا خواہ تو لڑکی کو سونے ہی میں کیوں نہ تول دے۔
جب نور الدین نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو اسے غصہ آگیا اور کہنے لگا کہ میں بھی اپنے بیٹے کی شادی تیری بیٹی سے کبھی نہ کروں گا۔ اس پر شمس الدین نے کہا کہ میں کبھی اس بات پر رضامند نہ ہوں گا کہ تیرا بیٹا میری بیٹی کا شوہر بنے۔
اگر میں پا بہ رکاب نہ ہوتا تو تجھے مزہ چکھا دیتا لیکن جب میں سفر سے واپس آﺅں گا تو دیکھ لیجیو کہ میری عزت کا اقتضا کیا ہے۔ جب نور الدین نے اپنے بھائی کی باتیں سنیں تو وہ طیش میں آگیا اور اسے دنیا و مافیہا کی خبر نہ رہی۔ لیکن اس نے ظاہر نہ کیا اور دونوں نے الگ الگ رات گزاری۔ جب سویرا ہوا تو سلطان نے کوچ کردیا اور جیزہ پہنچا اور اہرام کو دیکھنے روانہ ہوگیا اور وزیر شمس الدین اس کی معیت میں تھا۔

اب اس کے بھائی نورالدین کا حال سنئے۔ اس نے وہ رات نہایت غیظ و غضب میں گزاری۔ جب تڑکا ہوا وہ اٹھا اور فجر کی نماز پڑھی اور انبار خانے میں جا کر ایک چھوٹی سی خرجی لی اور اس میں سونا بھرا اور اپنے بھائی کی باتیں اور حقارت کے الفاظ یاد کرکے یہ اشعار پڑھتا تھا:
سفر کر اور پرانے دوستوں کے عوض نئے پیدا کر کیونکہ محنت مشقت ہی میں مزیدار زندگی ہے‘ ایک جگہ رہ پڑنے میں نہ عزت حاصل ہوتی ہے اور نہ مقصد‘ اگر کچھ ملتا ہے تو تکلیف سے۔
اس لیے وطن کو چھوڑ کر پردیس میں چلا جا۔ جب پانی رک جاتا ہے تو خراب ہو جاتا ہے، اگر بہتا ہے تو اچھا رہتا ہے اور اگر انہیں بہتا تو اچھا نہیں رہتا۔
اگر چاند کبھی کبھی چھپ نہ جاتا تو لوگ ہر وقت اس کے انتظار میں نہ رہتے۔ اگر شیر اپنا غار نہ چھوڑے تو کبھی شکار نہیں مار سکتا اور اگر تیر کمان سے جدا نہ ہو تو وہ کبھی نشانے پر نہیں بیٹھ سکتا۔
سونا جب تک کان میں ہے‘ مٹی ہے اور عود اپنی پیدائش کی جگہ اور لکڑیوں کی طرح لکڑی ہے‘ جب سونا کان سے باہر نکلتا ہے تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور جب عود اپنا ملک چھوڑ کر جاتا ہے تو وہ بیش بہا ہو جاتا ہے۔“
جب وہ یہ اشعار پڑھ چکا تو اس نے اپنے ایک غلام کو حکم دیا کہ نوبی خچر پر زردوزی کی زین کسے۔ وہ خچر چتکبرا تھا اور بلند بالا مثل گنبد کے جو ستونوں کے اوپر بنایا گیا ہو۔
زین سونے کی تھی اور رکابیں فولاد کی اور اس کے اوپر ایک شاہانہ جھول پڑی ہوئی تھی اور وہ خچر نئی دلہن کے معلوم ہوتا تھا۔ اس نے غلام کو حکم دیا کہ خچر پر ریشمی قالین اور مصلیٰ رکھے اور خرجی کو مصلے کے نیچے رکھ لیا اور نوکروں چاکروں سے کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ ذرا شہر کے باہر سیروتفریح کروں اور قلیوبیہ کے گرد و نواح میں جاﺅں اور تین دن وہاں گزاروں۔
کوئی میرے پیچھے نہ آئے کیونکہ میرا دل گھبراتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ فوراً خچر پر سوار ہوگیا اور اپنے ساتھ تھوڑا سا کھانے پینے کا سامان رکھ لیا اور شہر سے نکل کر جنگل کی راہ لی۔ ابھی ظہر کا وقت نہ ہوا تھا کہ وہ بلبیس شہر میں داخل ہوا۔ وہاں وہ خچر پر سے اتر پڑا اور سستایا اور خچر کو سستانے دیا اور کچھ کھانا نکال کر کھایا اور کچھ کھانا اور کچھ چارا بلبیس سے لے کر خچر پر لادا اور چل کھڑا ہوا۔
ابھی رات نہ ہونے پائی تھی کہ اس کا گزر ایک شہر میں ہوا‘ جس کا نام سعدیہ تھا۔ وہاں اس نے رات گزاری اور کچھ کھانا نکال کر کھایا اور قالین بچھا کر خرجی اپنے سر کے نیچے رکھ کر وہیں باہر سو گیا اور وہ غصے کے مارے بے چین تھا۔ سویرا ہوا تو وہ خچر پر سوار ہو کر چل دیا اور حلب پہنچا اور ایک کاروں سرائے میں اتر کر تین دن آرام کیا اور خچر کو آرام دیا اور ہوا دکھائی۔
اس کے بعد اس نے پھر سفر کی ٹھان لی اور اپنے خچر پر سوار ہوکر روانہ ہوگیا اور اسے معلوم نہ تھا کہ کہاں جارہا ہے۔ چلتے چلتے وہ بصرے پہنچا اور جب تک وہ سرائے میں داخل نہ ہوا‘ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ شہر بصرہ ہے۔ وہاں اس نے خرجی خچر پر سے اتاری اور مصلیٰ بچھایا اور خچر کو مع چار جامے کے دربان کے حوالے کیا کہ اسے پھرا لائے۔ دربان اسے پھرانے لے گیا۔
اب یہ اتفاق پیش آیا کہ بصرے کا وزیر اپنے محل کی کھڑکی میں بیٹھا ہوا تھا اور اس کی نظر خچر اور اس کے قیمتی چار جامے پر پڑی اور اسے خیال ہوا کہ یہ شاہانہ جلوس کا خچر ہے اور وزیروں بلکہ خود بادشاہوں کی سواری کا ہے۔ وہ اس سوچ میں پڑ گیا اور اس کی عقل دنگ رہ گئی۔ اس نے نوکر کو حکم دیا کہ اس دربان کو لے آئے۔ نوکر گیا اور دربان کو لے کر وزیر کی خدمت میں پیش کیا۔
دربان نے آگے بڑھ کر زمین کو بوسہ دیا۔ وزیر نے، جو بہت بوڑھا تھا، دربان سے کہا کہ اس خچر کا مالک کون ہے اور اس کا حلیہ کیا ہے؟ دربان نے جواب دیا کہ اے سردار‘ اس خچر کا مالک ایک کمسن جوان ہے۔ خوش سیرت اور اس کے چہرے سے ہیبت اور وقار ٹپکتا ہے اور وہ سوداگر زادہ ہے۔
جب وزیر نے دربان کی باتیں سنیں تو وہ اٹھ کھڑا ہوا اور سوار ہوکر سرائے گیا اور جوان سے ملا۔
جب نورالدین نے دیکھا کہ وزیر اس کے پاس آیا ہے تو وہ سروقد کھڑا ہوگیا اور آگے بڑھ کر اس کو سلام کیا۔ وزیر نے اسے مرحبا کہا اور گھوڑے سے اتر کر اسے سینے سے لگایا اوراپنے پاس بٹھا کر اس سے پوچھا کہ بیٹا‘ تو کہاں سے آیا ہے اور کیا چاہتا ہے؟ نورالدین نے جواب دیا کہ اے میرے آقا! میں مصر سے آیا ہوں اور وہاں کے وزیر کا بیٹا ہوں اور میرے باپ کا انتقال ہوچکا ہے اور پھر اس نے سارا قصہ شروع سے لے کر آخر تک بیان کردیا اور کہنے لگا کہ میں نے پکا ارادہ کرلیا ہے کہ جب تک تمام شہروں اور ملکوں کی سیر نہ کرلوں‘ گھر واپس نہ جاﺅں گا۔
جب وزیر نے یہ سنا تو اس نے کہا کہ بیٹا‘ اپنی خواہش کی پیروی مت کر ورنہ تو ہلاک ہو جائے گا کیونکہ اکثر ملک غیر آباد ہیں اور میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تو مصیبت میں نہ پھنس جائے۔ یہ کہہ کر اس نے اس کی خرجی کو خچر پر رکھا اور قالین اور مصلیٰ ساتھ لیا اور نورالدین کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور اس کو نفیس مکان میں اتارا اور اس کے ساتھ اکرام و احسان کیا اور بے حد محبت کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ بیٹا میں بوڑھا ہوگیا ہوں اور میرے کوئی بیٹا نہیں‘ مگر خدا نے مجھے ایک بیٹی عطا کی ہے جو حسن میں تجھ سے کم نہیں۔
میں نے اس کے بہت سے شادی کے پیغام رد کر دیئے ہیں مگر تیری محبت میرے دل میں جاگزین ہوگئی ہے۔ اس لیے اگر تو میری بیٹی کو اپنی خدمت کے لیے قبول کر لے اور اس کا شوہر ہونا پسند کرے تو میں بصرے کے سلطان کے پاس تجھے لے چلوں گا اور کہوں گا کہ تو میرا بھتیجا ہے اور تجھے اپنی جگہ وزیر بنوا دوں گا اورخود گھر بیٹھوں گا کیونکہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں۔

جب نوالدین نے بصرے کے وزیر کی باتیں سنیں تو اس نے اپنا سر نیچا کرلیا اور کہا کہ بسرو چشم۔ وزیر خوش ہوگیا اور نوکروں سے کہا کہ اس کے لیے کھانا لائیں اور بیٹھک کا بڑا کمرہ، جس میں بڑے لوگوں کی شادیاں رچائی جاتی ہیں‘ آراستہ کریں‘ اس کے بعد اس نے اپنے دوستوں اور حکومت کے بڑے لوگوں اور بصرے کے تاجروں کو بلایا اور وہ اس کے پاس آئے اور اس نے ان سے کہا کہ میرا ایک بھائی مصر میں وزیر تھا اور خدا نے اسے دو بیٹے عطا کئے تھے اور جیسا کہ تم جانتے ہو‘ خدا نے مجھے ایک بیٹی عطا کی ہے‘ میرے بھائی نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ میں اپنی بیٹی کی شادی اس کے ایک بیٹے سے کر دوں اور میں نے اسے مان لیا تھا۔
جب دونوں شادی کی عمر کو پہنچے تو اس نے اپنے ایک بیٹے کو میرے پاس بھیجا ہے اور وہ یہی جوان ہے جو یہاں موجود ہے۔ اب چونکہ وہ یہاں آیا ہوا ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس کا نکاح اپنی بیٹی سے کر دوں اور وہ اس کے ساتھ عروسی کی رات میرے یہاں گزارے۔ غیر شخص سے شادی کرنے سے یہ اچھا ہے‘ اس کے بعد اگر وہ چاہے تو میرے یہاں ٹھہرے اور چاہے تو میں اس کا انتظام کردوں گا کہ وہ مع اپنی بیوی کے اپنے باپ کے پاس چلا جائے۔
سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ تیری رائے خوب ہے۔ جب انہوں نے جوان کو دیکھا تو وہ انہیں بہت پسند آیا۔ اب وزیر نے گواہوں اور قاضیوں کو بلوایا اور انہوں نے نکاح نامہ مرتب کیا۔ پھر سب کے عطر لگایا اور سب نے شربت پیا‘ اور ان پر گلاب چھڑکا گیا اور وہ اپنے اپنے گھر واپس گئے اور اب وزیر نے اپنے نوکروں کو حکم دیا کہ نورالدین کو حمام میں لے جائیں اور وزیر نے اپنی خاص پوشاکوں میں اس کو ایک پوشاک عطا کیا ور اس کے لیے تولئے اور پیالے اور خوشبو کی انگیٹھیاں وغیرہ بھیجیں۔
جب وہ باہر نکلا اور کپڑے بدلے تو وہ چودھویں رات کے چاند کی مانند تھا۔ حمام سے نکل کر وہ اپنے خچر پر سوار ہوا اور وزیر کے محل میں گیا۔ محل میں پہنچ کر وہ خچر سے اترا اور وزیر کے پاس گیا اور اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور وزیر نے اسے مرحبا کہا۔
اب شہر زاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles