SatrhveeN Raat - Article No. 1607

SatrhveeN Raat

سترھویں رات - تحریر نمبر 1607

جب ہم شہر کے اندر داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سبھی کے سبھی خدا کے قہر میں مبتلا ہوکر کالے پتھر ہوگئے ہیں۔ نہ کوئی باشندہ وہاں باقی ہے نہ کوئی آگ دہکانے والا

پیر 27 نومبر 2017

جب سترھویں رات ہوئی تو اس نے کہا کہ اے نیک بخت بادشاہ جب وہ لڑکی امیر المومنین کے سامنے آئی تو کہا کہ میری داستان عجیب و غریب ہے اور یہ دونوں کالی کتیاں میری بہنیں ہیں۔ ہم تینوں سگی بہنیں ایک ماں باپ سے تھے۔ اور یہ دونوں لڑکیاں‘ جن میں سے ایک کے بدن پر مار کا نشان ہے اور دوسری جو سامان لانے والی ہے‘ دوسری ماں سے ہیں۔ جب ہمارے باپ کا انتقال ہوا تو ہم سب نے میراث میں سے اپنا اپنا حصہ لے لیا۔

تھوڑے دن کے بعد میری ماں کا انتقال ہوگیا، اس نے تین ہزار دینار ترکے میں چھوڑے اور ہر لڑکی کے حصے میں ہزار ہزار دینار آئے‘ میں ان سب سے عمر میں چھوٹی ہوں‘ اور میری بہنوں نے شادی کا سامان کرکے ایک ایک مرد سے شادی کر لی اور ایک مدت تک سب ساتھ رہے۔ پھر دونوں مردوں نے تجارت کی تیاری کی اور دونوں نے اپنی اپنی بیویوں سے ایک ایک ہزار دینار لیے اور انہیں ساتھ لے کر روانہ ہوگئے اور مجھے اکیلا چھوڑ دیا۔

(جاری ہے)

پانچ سال تک وہ باہر رہے اور اس اثنا میں شوہروں نے سارا مال گنوا دیا اور فقیر ہوگئے اور بیویوں کو پردیس میں چھوڑ کر چلتے ہوئے۔ پانچ سال کے بعد بڑی بہن فقیرانہ حالت میں پھٹے اور میلے لباس میں میرے پاس آئی اور اس کی حالت نہایت ابتر تھی۔ جب میں نے اسے دیکھا تو میں نے اس کی طرف کچھ خیال نہ کیا اور اس کو پہچانا نہیں۔ لیکن جب میں نے اسے پہچانا تو کہا کہ یہ تیری کیا حالت ہے؟ اس نے جواب دیا کہ بہن باتیں بنانے سے اب کچھ فائدہ نہیں‘ جو کچھ خدا کا حکم تھا‘ وہ تقدیر میں لکھا ہوا تھا۔
میں نے اسے حمام بھیجا اور پہننے کو کپڑے دیئے اور اس سے کہا کہ بہن تو ماں اور باپ کی بجائے ہے اور جو ترکہ مجھے تمہارے ساتھ ملا تھا‘ اس میں خدا نے برکت دی اور میں اس کی وجہ سے عیش و عشرت میں ہوں اور میری حالت بہت اچھی ہے اور ہم تم ایک ہیں۔ میں نے اس کے ساتھ بہت بھلائی کا سلوک کیا اور وہ میرے ساتھ پورے ایک سال تک رہی ل یکن ہمارا دل دوسری بہن میں لگا ہوا تھا۔
کچھ دن گزرنے کے بعد وہ بھی بڑی بہن سے زیادہ میلے کپڑوں میں آئی۔ میں نے پہلی بہن سے بھی بڑھ کر اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور دونوں کو اپنے مال میں ساجھی دار بنا لیا۔ کچھ مدت کے بعد انہوں نے کہا کہ بہن‘ ہم شادی کرنا چاہتی ہیں کیونکہ بغیر شوہر کے بیٹھا رہنا ہم سے نہیں ہو سکتا۔ میں نے کہا کہ اے میری آنکھ کی پتلیو‘ شادی کرنے میں اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آج کل اچھا مرد بالکل ناپید ہے۔
جو کچھ تم کررہی ہو اس میں میں کوئی بھلائی نہیں پاتی اور تم تو شادی کا تجربہ حاصل کرچکی ہو مگر انہوں نے میری بات نہ مانی اور بغیر میری مرضی کے شادی کرلی۔ پھر میں نے اپنے مال میں سے انہیں جہیز دیا اور ان کے لیے کپڑے بنوائے۔ دونوں بہنیں اپنے شوہروں کو لے کر چل دیں اور کچھ مدت تک ساتھ رہیں۔ شوہروں نے دھوکا دے کر جو کچھ ان کے پاس تھا‘ لے لیا اور وہاں سے ان کو چھوڑ کر چلتے ہوئے۔
اب وہ پھر مصیبت زدہ ہوکر میرے پاس آئیں اور معافی مانگی اور کہنے لگیں کہ ہم پر ناراض مت ہو کیونکہ تم ہم سے عمر میں چھوٹی اور عقل میں بڑی ہے۔ ہم اب ہرگز شادی کا ذکر نہ کریں گے۔ ہم کو اپنے پاس لونڈیاں بنا کر رکھ تاکہ ہم تیرا نمک کھائیں۔ میں نے کہا کہ مرحبا! میری بہنو‘ میرے لیے تم سے زیادہ عزیز کوئی اور چیز نہیں اور میں نے ان کو بوسہ دیا اور ان کے ساتھ پہلے سے زیادہ انعام و اکرام کیا۔
اس طرح سے ہم نے ایک سال گزارا۔ اس کے بعد میرا ارادہ ہوا کہ ایک کشتی پر تجارتی مال لے کر بصرے جاﺅں اور میں نے ایک بڑی کشتی تیار کی اور تجارتی مال و متاع اور دوسری ضرورت کی چیزیں اس میں رکھ کر اپنی بہنوں سے کہا کہ تمہارا جی چاہے تو یہیں گھر پر ٹھہرو‘ یہاں تک کہ میں سفر سے واپس آجاﺅں‘ اور جی چاہے تو ہمارے ساتھ چلو۔ انہوں نے کہا کہ ہم تیرے ساتھ چلیں گے کیونکہ ہمیں تیری جدائی کی طاقت نہیں۔
میں نے ان کو اپنے ساتھ لے لیا اور اپنی پونجی کے دو حصے کئے‘ ایک کو ساتھ رکھا اور دوسرے کو امانت رکھ گئی کیونکہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کشتی پر کوئی مصیبت آجاتی ہے مگر زندگی میں کچھ مدت باقی رہتی ہے۔ اگر ہم ایسی حالت میں لوٹے تو کچھ پسماندہ ہمارے پاس ہوگا‘ جس سے ہم فائدہ اٹھا سکیں گے۔ کئی دن رات چلنے کے بعد کشتی غلط راستے پر پڑ گئی اور ناخدا راہ بھول گیا اور کشتی اس سمندر سے دور ہوکر‘ جس میں ہم جانا چاہتے تھے‘ دوسرے سمندر میں داخل ہوگئی اور ہمیں ایک مدت تک اس کا پتہ نہ چلا ۔
اس کے بعد دس دن تک موافق ہوا چلتی رہی اور دیدبان نے اوپر چڑھ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی اور کہنے لگا کر خوشخبری ہو‘ اس کے بعد وہ خوش خوش اترا اور کہنے لگا کہ میں نے شہر کی طرح ایک چیز دیکھی ہے جو کبوتر کے برابر ہے۔ یہ سن کر ہمیں بڑی خوشی ہوئی اور ابھی ایک پہر دن نہ گزرا تھا کہ دور سے ایک شہر چمکتا ہوا نظر آیا۔ ہم نے ناخدا سے پوچھا کہ اس شہر کا کیا نام ہے جس کی طرف ہم جارہے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم مجھے معلوم نہیں۔
میں نے نہ اس کو پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ کبھی میرا اس سمندر میں گزر ہوا ہے‘ لیکن خدا کی طرف سے سلامتی کا حکم آگیا ہے۔ اب سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ تم لوگ اس شہر میں جاﺅ اور دیکھو کہ اپنا مال بیچ سکتے ہو کہ نہیں۔ اگر بیچ سکتے ہو تو بیچو اور جو کچھ اس شہر میں ملے‘ اسے اپنے ہاتھ لے چلو اور اگر تمہارے لیے بکری کا کوئی امکان نہ ہو تو ہم دو دن یہاں ٹھہر کر اور راہ کی ضروریات لے کر چل دیں گے۔

اب ہم خشکی پر اترے اور ناخدا شہر میں گیا اور تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اٹھو اور شہر میں جاﺅ۔ خدا نے جو مخلوق پیدا کی ہے‘ اس کو تعجب کی نظر سے دیکھو اور اس کی ناراضگی سے پناہ مانگو۔ ہم شہر کی طرف چڑھے اور جب میں دروازے پر پہنچی تو میں نے بہت سے آدمی دیکھے جو ہاتھوں میں چھڑیاں لیے دروازے پر کھڑے تھے۔ جب میں ان کے پاس پہنچی تو معلوم ہوا کہ ان پر خدا کا قہر نازل ہوا ہے اور وہ پتھر ہوکر رہ گئے ہیں۔
اب ہم شہر کے اندر داخل ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سبھی کے سبھی خدا کے قہر میں مبتلا ہوکر کالے پتھر ہوگئے ہیں۔ نہ کوئی باشندہ وہاں باقی ہے نہ کوئی آگ دہکانے والا۔ اس سے ہمارے اوپر دہشت طاری ہوئی۔ تاہم ہم بازاروں میں داخل ہوئے اور دیکھا کہ سودے کا مال سارا رکھا ہوا ہے حتیٰ کہ سونا اور چاندی بھی پہلے کی طرح رکھا ہوا ہے، ہم خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہو نہ ہو اس میں کوئی بھید ہے‘ اسی لیے شہر کے راستوں میں منتشر ہوگئے اور ہر شخص اپنے ساتھی سے جدا ہوکر سامان اور مال اور کپڑے جمع کرنے لگا۔

اب میرا ماجرا سنئے۔ میں قلعے کو گئی اور دیکھا کہ وہ مضبوط بنا ہوا ہے اور میں بادشاہ کے محل میں داخل ہوگئی۔ وہاں پر میں نے دیکھا کہ سارے برتن سونے چاندی کے ہیں اور ساتھ ساتھ میری نظر بادشاہ پر پڑی اور دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پاس اس کے ملازم اور صوبہ دار وزیر ہیں اور اس کا لباس اس قسم کا ہے کہ عقل کو حیرت ہوتی ہے۔ جب میں بادشاہ کے پاس پہنچی تو دیکھا کہ وہ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے جس میں موتی اور جواہرات جڑے ہوئے ہیں اور اس کی پوشاک سونے کی ہے اور اس کے جواہرات ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں اور اس کے اردگرد پچاس گورے غلام کھڑے ہوئے ہیں جن کے لباس طرح طرح کے ریشم کے ہیں اور جن کے ہاتھ میں برہنہ شمشیریں ہیں۔
جب میں نے یہ دیکھا تو میری عقل دنگ رہ گئی۔ اب میں آگے بڑھی اور حرم سرا میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس کی دیواروں پر ریشمی پردے پڑے ہوئے ہیں‘ جن میں سنہرے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ملکہ وہاں سو رہی ہے اور اس کی پوشاک میں تازے موتی جڑے ہوئے ہیں اور اس کے سر پر ایک تاج ہے جس میں طرح طرح کے نگینے جڑے ہوئے ہیں اور وہ گلے میں ہار اور لڑیاں پہنے ہوئے ہے اور اس کے لباس اور زیور میں ذرا بھی فرق نہیں آیا لیکن وہ بھی خدا کے قہر کی ماری کالا پتھر ہوکر رہ گئی ہے۔
وہاں میں نے ایک کھلا ہوا دروازہ دیکھا اور اس پر چڑھ گئی۔ وہ ایک سات منزلہ مکان تھا اور بالکل مر مر کا بنا ہوا تھا اور اس میں سنہرا فرش بچھا ہوا تھا۔ وہاں میں نے ایک تخت دیکھا جو صنوبر کی لکڑی کا تھا اور جس میں موتی اور جواہرات اور زمرد کے دو انار جڑے ہوئے تھے اور اس کے اوپر ایک چھجا تھا‘ جس کے پردے میں موتی پروئے ہوئے تھے۔ میں نے دیکھا کہ اس چھجے کے دروازے سے روشنی آرہی ہے اور میں اس کے اوپر چڑھ گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ چھجے کے صدر میں ایک چھوٹی سی کرسی اور اوپر بطخ کے انڈے کے برابر ایک ہیرا رکھا ہوا ہے‘ جو شمع کی طرح روشن ہے اور جس کی روشنی چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے اور تخت کے اوپر طرح طرح کے ریشم بچھے ہوئے ہیں‘ جن کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
جب میں نے یہ دیکھا تو مجھے سخت تعجب ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہاں موم بتیاں جل رہی ہیں اور اپنے دل میں کہا کہ یہاں کوئی نہ کوئی ضرور ہونا چاہیے‘ جس نے یہ موم بتیاں جلائی ہیں۔ یہ سوچ کر میں آگے بڑھی اور ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوئی اور وہاں تفتیش کرنے اور ادھر ادھر چکر لگانے لگی اور حیرانی کی وجہ سے اپنے آپ کو بھول گئی اور سوچ میں پڑگئی۔
یہاں رات ہوگئی۔ اب میں نے نکلنے کا اراداہ کیا تو باہر جانے کا کوئی راستہ نہ ملا اور میں راہ بھول گئی۔ لہٰذا میں چھجے میں واپس آئی جہاں ایک موم بتی جل رہی تھی اور تخت پر بیٹھ کر لحاف اوڑھ لیا اور قران کی بعض آیتیں پڑھنے لگی۔ میں نے چاہا کہ سو جاﺅں لیکن نیند نہ آئی کیونکہ میں بے چین تھی۔ جب آدھی رات ہوئی ارو میں نے کسی شخص کو نہایت پیار مگر دھیمی آواز سے قرآن پڑھتے سنا۔
میں خوش ہوکر آواز کی طرف چلی اور ایک کوٹھڑی کے پاس پہنچی۔ جس کا دروازہ بند تھا۔ جب میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ مسجد ہے اور اس میں ایک محراب ہے اور بہت سی قندیلیں لٹکی ہوئی اور دو موم بتیاں جل رہی ہیں اور وہاں ایک مصلہ بچھا ہوا ہے اور اس پر ایک حسین جوان بیٹھا ہوا ہے اور اس کے سامنے رحل پر ایک قرآن رکھا ہوا ہے اور وہ اس کو پڑھ رہا ہے۔
میں حیران ہوگئی کہ تمام شہر والوں میں سے یہ اکیلا کس طرح بچ گیا!
میں اندر گئی اور اس کو سلام کیا۔ اس نے نظر اٹھائی اور سلام کا جواب دیا۔ میں نے کہا کہ میں تجھے اس خدا کی کتاب کی قسم دے کر جس کو تو پڑھ رہا ہے‘ کہتی ہوں کہ تو میرے سوال کا جواب دے۔ جوان میری طرف نظر اٹھائے ہوئے تھا اور مسکرا رہا تھا اور اس نے کہا کہ اے لڑکی‘ تو اپنے اس مکان میں داخل ہونے کا سبب مجھے بتا اور میں تجھے اپنے اور اس شہر والوں کے ماجرے سے مطلع کروں گا۔
میں نے اپنا قصہ بیان کیا تو اسے بہت تعجب ہوا۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ اب اس شہر کا حال بتا۔ اس نے کہا کہ اے بہن‘ ذرا ٹھہر جا۔ یہ کہہ کر اس نے قرآن کو بند کیا۔ اور اسے ایک اطلس کے جزدان میں بند کرکے اوپر رکھ دیا اور مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ میں نے دیکھا کہ وہ مثل چودھویں رات کے چاند کے ہے‘ جس کے اعضا خوبصورت، جسم ملائم اور چہرہ حسین ہے‘ گویا وہ اچھے قوام والی مصری کی ڈلی ہے اور خدا نے اسے انتہائی خوبصورتی کا جامہ پہنایا اور اس کو پیارا اور دلکش بنانے کے لیے اس میں اس کے رخسار کی گوٹ لگائی ہے۔

میں نے اس کو ایک نظر دیکھا ہی تھا کہ ہزاروں ارمان دل میں جاگ اٹھے اور میرا دل اس کی محبت میں پھنس گیا۔ میں نے کہا کہ اے آقا‘ میرے سوال کا جواب دے۔ اس نے کہا کہ بسروچشم۔ اے خدا کی لونڈی‘ تجھے معلوم ہو کہ یہ شہر میرے باپ کا شہر ہے اور میرا باپ وہی ہے جس کو تو نے کرسی پر بیٹھا دیکھا ہے اور جو خدا کے قہر سے کالا پتھر بن گیا ہے اور وہ ملکہ جس کو تو نے چھجے میں دیکھا ہے‘ وہ میری ماں ہے۔
یہاں کے سب لوگ آتش پرست تھے جو زبردست خدا کو چھوڑ کر آگ کی پرستش کرتے تھے اور آگ کی روشنی اور سائے اور دھوپ اور گھومنے والے آسمان کی قسم کھاتے تھے۔ میرے باپ کے کوئی اولاد نہ تھی اور میں اس کی آخری عمر میں پیدا ہوا۔ اس نے میری تربیت کی اور میں بڑا ہوا۔ میری خوش قسمتی سے ہمارے یہاں ایک بڑھیا تھی جو بہت بوڑھی ہوچکی تھی‘ مسلمان تھی اور دل میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھی تھی اور ظاہراً میرے خاندان کے دین پر چلتی تھی۔
اس کی پرہیزگاری اور عفت کی وجہ سے میرے باپ کو اس پر بڑا بھروسہ تھا اور وہ آئے دن اس کی زیادہ عزت کیا کرتا تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ اسی کے دین مذہب پر ہے۔ جب میں بڑا ہوا تو میرے باپ نے مجھے اس کے سپرد کیا اور کہا کہ اسے لے جا اور اس کی تربیت کر اور ہمارا دین سکھا اور تربیت میں کوتاہی نہ کر اور اس کی دیکھ بھال کر۔ بڑھیا نے مجھے لے جا کر اسلام کی تعلیم دی مثلاً وضو اور نماز کے فرائض اور مجھے قرآن حفظ کرایا اور کہا کہ سوائے خدا کے کسی کی پوجا مت کر۔
جب یہ سب کچھ ہوچکا تواس نے مجھ سے کہا کہ بیٹا‘ اس بات کو اپنے باپ سے چھپائیو اور اس کو خبر نہ دیجیو، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تجھے قتل کر ڈالے۔ میں نے یہ باتیں اپنے باپ سے پوشیدہ رکھیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد بڑھیا فوت ہوگئی اور شہر والوں کا کفر اور بے دینی اور گمراہی بڑھتی گئی۔ اسی حالت میں انہوں نے سنا کہ کوئی منادی‘ بجلی کی کڑک کی طرح زور سے کہہ رہا ہے اور دور اور نزدیک والے سب سن رہے ہیں کہ اے اس شہر کے باشندو‘ آگ کی پرستش چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرو جو مالک اور رحمان ہے۔
شہر والے اس سے ڈر گئے اور میرے باپ کے پاس آئے جو اس شہر کا بادشاہ تھا اور کہنے لگے کہ یہ ڈراﺅنی آواز کیسی ہے‘ جسے سن کر ہمیں دہشت ہوتی ہے؟ اس نے کہا کہ آواز سے مت ڈرو اور خوف نہ کھاﺅ اور اپنے دین سے نہ پھرو۔ میرے باپ کا کہنا ان کے دل میں بیٹھ گیا اور انہوں نے آگ کی پرستش جاری رکھی اور ان کی گمراہی بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ پہلی آواز سنے ایک سال ہوگیا۔
پھر وہی منادی دوسری بار ظاہر ہوا اور انہوں نے اسے سنا اور پھر تیسرے سال تیسری بار‘ یعنی ہر سال ایک بار لیکن وہ اپنے پرانے اعتقاد سے باز نہ آتے تھے‘ یہاں تک کہ ان کے اوپر ایک روز تڑکا ہونے کے بعد آسمان سے خدا کا قہروغضب نازل ہوا اور وہ، ان کے چوپائے اور مویشی قہر میں مبتلا ہوکر سیاہ پتھر ہوگئے اور اس شہر والوں میں سے سوائے میرے کوئی نہ بچا۔
جس دن سے یہ واقعہ پیش آیا ہے‘ میں اسی طرح نماز روزے اور قرآن کی تلاوت کرنے میں مشغول ہوں‘ مگر تنہائی سے اکتا گیا ہوں کیونکہ میرے پاس کوئی نہیں ہے‘ جس سے میں دل بہلاﺅں۔
یہ سن کر میں نے کہا‘ ورانحالیکہ وہ میرے دل پر قبضہ کر چکا تھا‘ کہ اے جوان اگر تیرا جی چاہے تو میرے ساتھ بغداد چل اور عالموں اور فقیہوں سے مل کر اپنے علم و فہم اور فقہ میں اضافہ کر۔
تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ یہ لونڈی جو تیرے سامنے کھڑی ہے‘ اپنی قوم کی سردار ہے اور اس کی حکومت بہت سی رعایا اور نوکروں اور غلاموں پر ہے اور میرے ساتھ کشتی ہے جس پر تجارت کا سامان لدا ہے۔ قسمت ہمیں اس شہر میں لے آئی ہے‘ جس کی وجہ سے ہمیں یہ ساری باتیں معلوم ہوئیں اور ہماری تقدیر میں آپس میں ملنا لکھا تھا اور میں برابر اسے محبت اور ترکیب سے آمادہ کرتی رہی یہاں تک کہ وہ مان گیا اور اقرار کر لیا۔
اب شہرزاد کو صبح ہوتی دکھائی دی اور اس نے وہ کہانی بند کردی‘ جس کی اسے اجازت ملی تھی۔

Browse More Urdu Literature Articles