اور کاون چلا گیا

بدھ 2 دسمبر 2020

Burhan Ud Din Qazi

برہان الدین قاضی

کاون  کو جانا ہی تھا  ۔ اچھا ہوا چلا گیا ۔ مگر جاتے جاتے اپنے پیچھے جو سوال چھوڑ گیا ان کا جواب شاید ہمیں کبھی نہ مل سکے ۔
جانور  ہمیشہ سے ہی انسانوں خصوصا بچوں کی اولین پسند رہے ہیں ۔ اسی پسند کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں چڑیا گھر اور سفاری پارک بنائے جاتے ہیں ۔ جہاں جانوروں کو ان کا قدرتی ماحول فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش  کی جاتی ہے  اور اسے حکومت وقت کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے ۔

صرف یہ کہہ کر کہ اسلام آباد میں کاون کو وہ تمام سہولیات میسر نہیں جو اس کے لیے ضروری ہیں کہیں اور بھیج دینا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ ہم کب تک اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑتے رہیں گے ۔
کاون شاید اسلام آباد میں تھا ۔ کسی کی نظر پڑ گئ تو زنجیروں سے آزادی مل گئ ۔

(جاری ہے)

لیکن اسی ملک کے کئ چھوٹے چڑیا گھروں میں شاید جانور اس سے بھی برے حال میں موجود ہیں اور کئ شاید کاون ہی کی طرح زنجیروں میں بندھے کسی مسیحا کے منتظر ہیں ۔

لیکن کیونکہ وہ اسلام آباد میں نہیں اور کسی چھوٹے شہر میں ہیں تو شاید ان پہ کسی کی نظر نہ پڑے  ۔ اور اگر ان کے حق کے لیے کوئ آواز بھی اٹھائے تو شاید اسے زیادہ پذیرائ نہ مل سکے ۔  لیکن اگر آواز اٹھ گئ  اور ان کے حالات دنیا کے سامنے آگئے تو ؟؟؟
آج  کاون گیا ہے ۔ کل کوئ اور جانور جائے گا ۔ ایسے ہی چلتا رہا تو ملک بھی میں موجود چڑیا گھر شاید ایک دن بند کرنے پڑ جائیں ۔

صرف یہ کہ کر کہ وہاں جانوروں کو قدرتی ماحول اور مطلوبہ سہولیا ت میسر نہیں ۔ ٹھیک کرنے کی بجائے بند کر دو پالیسی کی اعلٰی مثال ۔
عرض صرف اتنی ہے کہ اس ملک میں بنیادی  سہولیات تو اس ملک کے شہریوں کو بھی میسر نہیں ۔ تو کیا انھیں بھی اسی طرح اس ملک سے چلتا کیا جائے گا ۔ جس ملک میں "سفید ہاتھی" زور و شور سے پالے جاتے ہیں اور بخوشی ان کا بوجھ اور نخرے اٹھائے جاتے ہیں وہاں اصلی ہاتھی کو کئ سالوں تک زنجیروں سے باندھ کےرکھنا سمجھ سے بالاتر ہے  ۔


اچھا ہی ہوا کاون چلا گیا  اور اپنے پیچھے زنجیروں میں بندھی ایک قوم چھوڑ گیا  جو صرف اس امید پہ زندہ رہے گی کہ کب ان کی باری آتی ہے اور کب انھیں ان زنجیروں سے آزاد کر کے ملک بدر کیا جاتا ہے  کہ معاف کرنا ہم مزید تمھارا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے ۔
دنیا بھی ہنس رہی ہو گی  کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھنے والی ایٹمی قوت قوم ایک ہاتھی نہیں سنبھال سکی   ۔
 کاون چلا گیا لیکن شاید اپنا گوبر اس قوم کہ منہ پر مل گیا جو صرف احساس کرنے والوں کو ہمیشہ اپنی نالائقی کا احساس دلاتا رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :