خودکلامی

پیر 19 فروری 2024

Qasim Ali Shah

قاسم علی شاہ

ٹونی رابنزاسپیکنگ انڈسٹری کا ایک مہنگا ترین ٹرینر ، لائف کوچ اورکئی بیسٹ سیلر کتابوں کا مصنف ہے۔1986ء میںThe Unlimited Powerکے نام سے اس کی ایک کتاب منظر عام پر آئی جو انتہائی مقبول ہوئی ۔میں نے آج سے 19 سال پہلے یہ کتاب پڑھی ، اس کاایک پیراگراف مجھے بے حد پسند آیا تھا جس نے مجھے زندگی میں بہت فائدہ دیا۔اس نے لکھا تھاکہ ہر انسان کے ساتھ دوطرح کی Communicationsچل رہی ہوتی ہیں۔

ایک قسم کی Communicationوہ ہے جس میں انسان بولتاہے اور دوسرا شخص اس کی بات سنتاہے، یا پھر کوئی اور شخص بولتاہے اور وہ سنتاہے۔جب کہ دوسری قسم Communication(ابلاغ)وہ ہے جس میں انسان اپنی ذات کے ساتھ بات چیت کرتاہے اور یہ بات چیت اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ اس شخص کا آنے والا وقت کیسا ہوگا۔
”خودکلامی“ایک فطری چیز ہے جو ہر انسان کے اندر چل رہی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

یہ دراصل آپ کی سوچوں ، آپ کے خیالات ، آپ کے ایقان اور آپ کے نظریات کا اظہار ہوتاہے۔آپ بیرونی دنیا میں جو کچھ دیکھتے اور سنتے ہیں ، جس طرح کے واقعات آپ کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ سب چیزیں مل کر آپ کے خیالات بناتی ہیں اور انھی خیالات کی بنیاد پر آپ اپنے ساتھ گفتگو کرتے ہیں۔
ڈاکٹر شیڈ ہیلمس ٹیٹر،25کتابوں کے مصنف ہیں ۔انھوں نے خودکلامی کے موضوع پر کافی کام کیا ہے ۔

وہ بتاتے ہیں کہ جس طرح ہم کی بورڈ کے ذریعے اپنے کمپیوٹر سسٹم کو کچھ معلومات دیتے ہیں ، وہ معلومات کمپیوٹر میں محفوظ ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح ہم اپنے حواس خمسہ کے ذریعے اپنے ذہن کو معلومات دیتے ہیں جوکہ وہاں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ذہن کواس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ آپ کی دی ہوئی معلومات مثبت ہیں یامنفی ۔اس کے بعد ہم ان معلومات کو اپنے ساتھ دہرانا شروع کردیتے ہیں۔

اسی عمل کو خودکلامی کہاجاتاہے۔خیالات دہرانے کا یہ عمل دراصل ایک قانون کے تحت ہوتا ہے جسے The Law of Repetition (قانونِ تکرار)کہاجاتاہے۔ہم کسی شخص ، چیز یا واقعہ کے بارے میں جو بھی خیال بناتے ہیں، ہمارے دماغ میں اس کے لیے چھوٹی چھوٹی پگڈنڈیاں بن جاتی ہیں۔ جب وہ خیال کئی بار دہرایاجاتاہے تو وہ پگڈنڈی مضبوط ہوکر راستہ بن جاتی ہے۔اس کے بعد بھی اسی خیال کو دہرایاجائے تو وہ راستہ ایک سڑک کی صورت اختیار کرلیتاہے اوریہی عمل جب بار بار کیاجائے تو وہ سڑک، ہائی وے کی طرح وسیع اور مضبوط ہوجاتی ہے اور پھر اس خیال کو بدلناانتہائی مشکل ہوجاتاہے۔


آپ کی اپنے ساتھ ہونے والی بات چیت آپ کے تحت الشعور سے ٹکراتی رہتی ہے اور بار بار جب یہ عمل دہرایا جائے تو یہ گفتگو تحت الشعور میں جڑ پکڑلیتی ہے، جسے ڈاکٹر شیڈ نے ہائی وے بننے کا نام دیاہے۔یادرکھیں کہ ایک بار جب تحت الشعور میں کوئی بات بیٹھ جائے توپھر وہ آپ کی طاقت بن جاتی ہے۔اب اگر آپ کی خودکلامی مثبت ہوتی ہے تو آپ کے اندر پید اہونے والی طاقت بھی مثبت ہوگی اوراس کی بدولت آپ بڑے سے بڑا ہدف بھی بہ آسانی حاصل کرپائیں گے لیکن اگر آپ کی خودکلامی منفی ہوئی تو پھر وہ ایک بھیانک طاقت کے روپ میں سامنے آئے گی اور آپ کی زندگی کو مشکلات و پریشانیوں سے بھردے گی۔


تحقیق بتاتی ہے کہ جن لوگوں کاباطن مضبوط ہوتاہے ، ان کی کارکردگی بھی دوسروں کی نسبت بہترین ہوتی ہے۔یہ دراصل انسان کا Immune System(مدافعتی نظام)ہوتاہے ۔اس کی طاقت کا اندازہ آ پ اس بات سے لگائیں کہ انسان جب ماں کے پیٹ سے باہر آتاہے تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی آلائشیں اور جراثیم لگے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بچہ مر بھی سکتاہے لیکن اس کے مدافعتی نظام کویہ یقین ہوتاہے کہ میں نے زندہ رہناہے ، لہٰذا وہ ان تمام بیماریوں کامقابلہ کرتاہے اور انسان کوبچاتاہے۔


آپ کی خودکلامی کا آپ کے مدافعتی نظام سے مضبوط تعلق ہوتاہے۔ڈاکٹر شیڈ بتاتاہے کہ میں نے اپنی خودکلامی سے کافی نتائج حاصل کیے ہیں۔ایک زمانے میں میرا وزن کافی بڑھ گیا تھا ۔اسے کم کرنے کے لیے میں نے خودکلامی کی مدد لینے کافیصلہ کیا ۔میں نے اپنے چند جملے ریکارڈ کروائے اور انھیں سننے لگا۔میں روزانہ جب شیو بنارہا ہوتاتو پیچھے ریکارڈر آن کردیتا، وہ جملے بار بار میرے ذہن سے ٹکراتے ۔

کئی دنوں کی مشق کے بعد جب میں نے اپناوزن کروایا تو حیرت انگیز طورپر وہ کافی کم ہوچکا تھا۔
آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ خودکلامی کیسے کام کرتی ہے؟
اس بات کو سمجھانے کے لیے میں آ پ کے سامنے چند مثالیں رکھتاہوں۔ہم عام طورپر منفی خودکلامی کررہے ہوتے ہیں جیسے ہمارے ساتھ کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ پیش آتاہے تو اس کے لیے ہم خود کو قصور وار ٹھہرانا شروع کردیتے ہیں۔

جیسے فلاں امتحان میں میرے نمبر کم آئے، شاید میرے اندر یہ اہلیت ہی نہیں کہ میں ممتازنمبر لے سکوں ۔میرا حافظہ کمزور ہے۔میرے پاس موضوع کے مطابق معلومات بھی کافی نہیں ہیں۔میراخط بھی کافی گندا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہم کسی بھی واقعہ کے منفی پہلو پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، حال آنکہ اس واقعہ کے مثبت پہلو بھی ہوسکتے ہیں لیکن ہمارا ذہن ہمیں صرف منفی رُخ ہی دکھاتاہے ۔

مثال کے طورپرہماری گاڑی کاایکسیڈنٹ ہوگیا تو ہم سوچتے ہیں کہ شاید یہ میرے کسی گناہ کا نتیجہ ہے۔میں نے کسی کادل دکھایاتھا ، اس وجہ سے میرے ساتھ یہ ہوا۔حال آنکہ اس میں مثبت پہلو بھی ہوسکتاہے کہ اگرچہ آپ کی گاڑی کا چھوٹا موٹا نقصان ہوگیا لیکن آپ جسمانی طورپر محفوظ رہے ، عین ممکن ہے کہ اس سے بڑی مصیبت آنے والی تھی لیکن اللہ نے چھوٹی آزمائش دے کر بڑے نقصان سے آپ کو بچالیا۔


تیسر ی چیزیہ ہے کہ ہم انسانوں کو سیاہ ، سفید اور اچھے، برے کے پیمانے سے ماپتے ہیں۔کوئی بھی شخص اگر ہماری توقعات پر پورا نہ اترے تو ا س کامطلب یہ ہے کہ وہ ٹھیک نہیں۔جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔اس دنیا میں موجود کوئی بھی شخص نہ مکمل طورپر اچھا ہے اور نہ ہی مکمل طورپر برا۔بلکہ ہر انسان ایک درمیانی کیفیت میں ہوتاہے اور اپنے تجربات و علم کے مطابق وہ بہترین کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتاہے۔

فرق صرف یہ ہوتاہے کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہوتی ہے ، لیکن منفی خودکلامی کی وجہ سے ہمارا ذہن اس حقیقت کوتسلیم نہیں کرتا۔
سوال یہ ہے کہ انسان کا ذہن منفی کیوں سوچتاہے؟
دراصل ہزاروں سال پہلے جب انسان غاروں میں رہتا تھا تو ا س وقت اس کے دماغ میں بس دو ہی چیزیں ہوتی تھیں۔اپنے لیے خوراک کی تلاش اور کسی درندے کی خوراک بننے سے خود کو بچانا۔

جنگل ، بیابان میں رہنے کی وجہ سے درندوں کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا تھا، اس وجہ سے وہ انتہائی چوکس رہتا تھا۔معمولی سی آہٹ پر بھی اس کا ذہن اسے متنبہ کرتا کہ شکار آرہا ہے۔اس ماحول سے دماغ نے یہ سیکھا کہ میرا کام خطرے سے آگاہ کرنا ہے۔یہی چیز نسل درنسل انسان کے تحت الشعور میں چلتی آئی اور آج عالم یہ ہے کہ نہ ہم غاروں میں رہتے ہیں اور نہ ہی ہمیں درندوں کا کوئی خطرہ ہے لیکن ہمارا ذہن اسی ترتیب سے کام کررہا ہے۔

یہ کوئی بھی غیر متوقع چیز دیکھتاہے تو ہمیں متنبہ کرتاہے، ہمیں ڈراتا ہے اور یہی چیز منفی سوچنے کی وجہ بنتی ہے۔
یہاں تک آپ یہ بات سمجھ چکے ہوں گے کہ خودکلامی ایک طاقت ور ترین چیز ہے اور اگر یہ منفی ہو تو اس کے نتائج بڑے پریشان کن نکلتے ہیں۔اب آتے ہیں اس کے فوائد کی طرف۔
ہم اگر خودکلامی کو مثبت بنالیں تو اس کا ایک بہترین فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری خوداعتمادی اور خود توقیری میں اضافہ ہوجائے گا۔

ہم اپنے اعصاب پر قابو پاسکیں گے۔ہم لوگوں کے ساتھ اور خاص طورپر کسی انجان ماحول میں گھبراہٹ محسوس نہیں کریں گے بلکہ مکمل اعتماد کے بات چیت کرسکیں گے،دوسروں سے اپنا تعارف کرواسکیں گے اور اپنی خدمات کو بہترین الفاظ میں بیان کرسکیں گے۔خودتوقیری میں اضافے کی وجہ سے ہم اپنے بارے میں منفی سوچ نہیں رکھیں گے ، ہم اپنی ذات کی قدر کریں گے اور اپنی زندگی کو ایک بہترین نعمت سمجھ کر گزاریں گے۔


مثبت خودکلامی کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوتاہے۔اس کی بدولت ہم بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ہماری زندگی پُرسکون ہوجاتی ہے ۔ہم اپنے بارے میں خوب صورت خیالات رکھتے ہیں۔یہ مثبت خیالات ہماری زندگی میں مثبت چیزیں لے کر آتے ہیں اور ہم بے سکونی کا شکار نہیں ہوتے ۔
چوتھا فائدہ یہ ہے کہ ہماری فکریں کم ہوجاتی ہیں۔

ہمیں ان تمام غیر ضروری منفی خیالات سے چھٹکارا مل جاتاہے جو ہماری زندگی کواجیرن بناتے ہیں۔
پانچواں فائدہ یہ ہے ہماری کارکردگی روز بروز بہترہونا شروع ہوجاتی ہے۔جب ہم خود کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ میں مشکل سے مشکل کام بھی کرسکتاہوں تو پھر ہم وہ کربھی لیتے ہیں۔کارکردگی بہتر ہونے سے ہماری آمدن بھی بڑھتی ہے اور ہمارے لیے آگے بڑھنے کے مواقع پیدا ہوناشروع ہوجاتے ہیں۔


چھٹا فائدہ یہ ہے کہ ہم خودکلامی کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرسکتے ہیں اور اس کاطریقہ یہ ہے کہ روزانہ مخصوص وقت پر مخصوص الفاظ کے ساتھ خودکلامی کی مشق کی جائے۔
ساتواں فائدہ یہ ہے کہ مثبت خودکلامی کی بدولت انسان کے اندر جینے کی اُمنگ بڑھ جاتی ہے۔وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی کارآمد بنتاہے ۔
آٹھواں فائدہ یہ ہے کہ مثبت خود کلامی کے ذریعے انسان نفسیاتی وروحانی آسودگی پالیتاہے۔

اس کا دل کشادہ ہوجاتاہے اور پھر وہ چھوٹے مسائل کی وجہ سے پریشان نہیں ہوتا اور نہ ہی معمولی چیزوں کے پیچھے بھاگتاہے۔
خودکلامی سے مستفید ہونے کارواج کھیل کے میدانوں میں بھی مقبول رہا ہے۔تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہر وہ کھلاڑی جو اپنی فتح کے خواب دیکھتاہے ، اپنے ساتھ اس کے متعلق بات چیت کرتاہے اور اس کو تخیل میں سوچتاہے تو وہ میدان میں شان دار نتائج دکھاتاہے اوراسی قدر ہی اس کے فتح یاب ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔


یادرکھیں کہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کی بدولت مثبت خودکلامی پیدا ہوتی ہے۔قوت ارادی اور توکل
قوت ارادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات اور احساسات پرقابو رکھے۔وہ فوری طور پر ردِعمل نہ دے بلکہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے۔کسی بھی ناخوش گوار واقعہ کی صورت میں وہ تحمل سے کام لے اور جذباتی قدم سے خود کو بچائے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ اس انسان کی قوت ارادی زیادہ مضبوط ہوتی ہے جو رات کے پچھلے پہر اٹھتاہے۔

بہ حیثیت مسلمان اگر ہم دیکھیں تو تہجد کی فضیلت بھی اسی لیے ہے ۔ ہر وہ شخص جو تہجد کا پابند ہو تو اس کی ذہانت ، اس کا تدبر اور اس کی قوت فیصلہ عام انسانو ں کی بہ نسبت بہترین ہوتاہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی وجہ سے فرمایا تھا کہ مجھے دوچیزیں پسند ہیں۔گرمی کا روزہ اور تہجد کی نماز ۔
دوسری چیز اللہ پر توکل ہے۔توکل کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنی طرف سے محنت مکمل کرلی اور اس کے بعد نتیجہ اللہ پر چھوڑدیا ۔

توکل میںآ پ کو مکمل یقین ہوتاہے کہ میرا کارساز صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔آ پ انسانوں سے نہیں بلکہ اللہ کی ذات سے امید رکھتے ہیں۔آ پ انسانو ں کو خوش کرنے کے بجائے اللہ کے دفتر میں اپنے اعمال ریکارڈ کرواتے ہیں۔جیسے جیسے آپ کا توکل بڑھتاہے تو اس کے ساتھ آپ کی مثبت خود کلامی بھی بڑھتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :