سچ بولنامشکل، لکھنا بہت آسان

پیر 10 جولائی 2023

Sajid Khan

ساجد خان

پاکستان میں سچ اور حق کے درمیان ایک خاموش سی جنگلڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں جنتا کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا۔ عوام کو تقسیم کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔مگر مطلوبہ نتائج کافی حد تک مایوس کن ہیں۔ اس ساریصورت حال میں دستور پاکستان کو مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ نامکمل قومی اسمبلی نے دستور پاکستان کو نظرانداز کر کے ایسی قانون سازی کی ہے جس سے آئین پاکستانبے توقیر ہوا ۔

اس پرمورخ کیا لکھے گا۔ اس پر تشویش کیضرورت نہیں۔ مگرمہدود پیمانے پر تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ابھی چند دن پہلے مظفر آباد آزاد کشمیر میں ہمارے عہد کےبڑے صحافی کی کتاب کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمامتھا۔ کل تک صحافی کا تعلق خبروں تک ہوتا ہے۔ مگر ابصحافت کا نصاب بدلتا جا رہا ہے۔ تو ذکر ہو رہا تھا ہمارےکالم نویس ساتھی سلیم صافی کا جن کی تبدیلی کےموضوع پر تیسری کتاب ”تبدیلی گلے پڑ گئی“ پر ہم خیال اورصاحب نظر لوگوں کابینچ تھا ۔

(جاری ہے)

مجھے سلیم صحافی کےاضافی نام صافی کی سمجھ نہیں آتی۔ ہمدرد دواخانہ کیمشہور دوائی”صافی“ بہت پر اثر مگر بہت ہی کڑوی دوائیہے اور سلیم صافی کا اسلوب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

پرانے زمانے کی بات ہے ۔ ہندوستان پر جبری قابض گورے اباپنے آپ کو خطرے میں دیکھ رہے تھے۔ اور راہِ فرار کو آسانبنانے کے لیے ہندوستان سے دور پار ایک اپنے ملک میںہندوستان کے اہم لوگوں سے بات چیت کر کے اندازہ لگا رہےتھے کہ ان سب سے آزادی کی کتنی قیمت وصول کی جاسکتی ہے۔

ان کو اگر خوف تھا تو انقلاب سے تھا۔ ایساانقلاب ان کے ہمسایہ ملک فرانس میں آ چکا تھا۔ برطانیہ ایکبڑا انقلاب دشمن  ملک ہے۔ ادھر ہندوستان میں انقلاب ہیآزادی کا نسخہ تھا۔ ایک انقلاب یورپ بھر میں آیا اور پھرویسا ہی انقلاب امریکہ میں آیا اور وہاں سے گورے کو نکلناپڑا۔ دنیا بھر میں انقلاب کا فلسفہ ہر جگہ مختلف نظر آتا ہے۔پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد کچھ ترقی پسندوں نے انقلابکی کوشش ضرور کی۔

مگر ہماری بہادر افواج نے اس انقلابکو سازش کا نام دے کر پابند سلاسل کر دیا۔ لوگ انقلابیلوگوں سے ڈرنے لگے۔ انقلاب کو کافر بھی کہا گیا۔ مگر کسیکو بھی تبدیلی کا خیال نہیں آیا۔

بات ہو رہی ہے منفرد کالم نگار اور صحافی سلیم صافی کےزور قلم کی اور انہوں نے تبدیلی کے تناظر میں تین کتابیںلکھ چکے ہیں۔جب سلیم صافی کو تبدیلی کی آمد کا اندازہہوا تو انہوں نے پہلی کتاب لکھی”تبدیلی لائی گئی“۔

پھرچند مہینوں بعد دوسری کتاب منظر عام پر آ گئی ”تبدیلیمہنگی پڑ گئی“ اور اب عہد حاضر میں کالموں کا تیسرامجموعہ ”تبدیلی گلے پڑ گئی“ منظر عام پر آ چکی ہے۔ وطنمیں تبدیلی کا عمل کب شروع ہوا۔ اس کا اندازہ لگانا ذرامشکل ہے۔ ہاں کرکٹ کے کھیل میں تبدیلی کا عمل 1992ءمیںنظر آتا ہے۔ جب سابق کپتان نے کرکٹ کی دنیا میں اہم لوگوںکو نظر انداز کیا۔

جو اس کے عزیز اور رشتہ دار بھی تھے۔1992ءمیں ورلڈ کپ کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ پاکستانزیادہ سے زیادہ سمی فائنل تک جا سکے گا مگرسابق کپتان نےتقسیم شدہ ٹیم کو یک جا کیا۔ اس تبدیلی نے پاکستان کیٹیم کو بدل کررکھ دیا اور حیرت انگیز طور پر پاکستان ورلڈکپ جیت گیا۔ تبدیلی نے کرکٹ کی تاریخ بنا دی۔

ہمارے ہاں گزشتہ کئی ماہ سے جو مخلوط سرکار ملک کو چلارہی ہے۔

اس کے کارناموں کا ذکر تو مورخ ہی کرے گا۔ مگرہمارے نامور کالم نویس دوستوں نے عوام کے حقوق کی کبھیبھی بات نہیں کی۔اور اس سلسلے میں تقریب کے دوران سارےکالم نگار حضرات نے کوشش کی اور بتایا سلیم صافی کیباتوں سے کار سرکار پریشان ہی رہتی تھی۔ ایک واقعہ جوجناب حامد میر نے بیان کیا بڑا حیران کن سا لگا۔ حامد میرصاحب نے فرمایا کہ 2018ءکے انتخابات سے پہلے کی باتہے۔

میں نے عمران خان کا انٹرویو کیا۔ انٹرویو کرنے کے بعدمجھے فون آیا کہ جنرل باجوہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میںعسکری دوستوں کی حفاظت میں ان سے ملنے چلا گیا۔ تووہاں پر ہمارے دوست سلیم صافی کی آمد میرے سامنےہوئی۔ فارغ جنرل باجوہ نے مجھ سے گلا کیا کہ عمرا ن کیمخالفت چھوڑ دو، میں نے سنی ان سنی کر دی۔ سلیم صافیکا ان سے بھرپور مکالمہ جاری رہا۔

سلیم صافی کا مشورہتھا۔”آپ ایک دن پریشان ہونگے“۔ خیر اس میں ایک بات حیرانکن لگی۔ حامد میر نے کہا کہ عمران آپ کا آدمی ہے تو فارغجنرل باجوہ کا جواب تھا ۔”کیا وہ ساڈا آدمی ہے؟“۔

وسعت علی خان نے بڑی صفائی سے فرمایا کہ سلیم صافیجس کے پیچھے پڑ گیا تو پڑ گیا ۔ انہوں نے تاریخ کی جمپ کابھی ذکر کیا اور بین السطور میں عمران خان کا نام نہ لیتےہوئے تعریف اور توصیف بھی کر دی۔

وسعت علی خان ایکزمانہ سے بی بی سی سے وابستہ رہے۔ اور خوب لکھا بھی۔اس تقریب میں ہماری اعلیٰ نوکر شاہی کے اہم ستون فوادحسین فواد نے بھی خطاب کیا اور ایک واقعہ بیان کیا، جبباؤ جی کی تبدیلی کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظمتھے تو میں نے ان کی خصوصی اجازت سے ملک کے اہمعسکری افراد سے ملاقات کی ٹھانی اور ملاقات کی بھی اوران کو باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ جس پراجیکٹ پر کامکر رہے ہیں،وہ مناسب نہیں ہے۔

ان سب نے میری بات غور سےسنی اور مجھے برداشت بھی کیا۔ مگر وہ مجھ سے متفق نہتھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ مجھےغلط فہمی ہوتی ہے۔ میں نے واپس آ کرشاہد خاقان عباسیکے گوش گزار کیا کہ وہ ماننے والے نہیں۔ وہ اپنی من مانیکریں گے۔ سابق وزیر اعظم نے مایوسی سے سر ہلایا اورپریشان نظر آئے۔

اس موقع پر سلیم صافی نے یاد بھی دلایا کہ جب فواد حسنفواد ، باؤ جی سابق وزیر اعظم کے پرنسل سیکرٹری تھے توہماری ان سے لڑائی رہتی تھی۔

مگر انہوں نے لڑائی کی وجہبیان نہیں کی۔ مگر مجھے خیال آتا ہے۔ ہمارے ایک بہت ہیاچھے دوست اور انسان بابر حسن بھرونہ جو آجکل الیکشنکمیشن میں پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ بھی فوادحسن فواد کی بہت تعریف کرتے تھے۔ بھرونہ صاحب کچھعرصہ وزیر اعظم کے دفتر سے وابستہ بھی رہے۔ اس ہی وجہسے فواد حسن فواد کو جب گرفتار کیا گیا تو بھرونہ صاحبکو خاصی تشویش تھی، ہم اُس ہفتہ کے روز اپنے مرشد اورمہربان سید سرفراز شاہ کے ہاں مدعو تھے۔

میں نے بابر حسنبھرونہ سے دوبارہ پوچھا تو انہوں نے ایک ہی بات کی۔ وہاچھا آدمی ہے اللہ مہربانی کرے گا۔ اس دن ہماری محفل میںسجاد میر اور پولیس کے اعلیٰ اور نفیس آفیسر عمرانمحمود بھی تھے اور سب کو عمران خان کی سرکار کےفیصلوں پر تشویش تھی۔ مگر شاہ صاحب کا فرمان تھا کہفود کا امتحان ہے۔ اللہ خیر کرے گا۔

میں بھی ایک عرصہ سے سلیم صافی کی تحریر کا رسیا ہوں۔

وہ سچائی اور جھوٹ کے درمیان فاصلہ رکھتے ہیں اور انہوںنے جس خوبی سے مولانا فضل الرحمن کی شخصیت کو بیانکیا۔ وہ بہت ہی دلچسپ ہے۔ اور مولانا پہلی دفعہ کسی کےسامنے بے بس اور لاچار نظر آئے۔ سلیم صافی نے ان تینکتابوں کے علاوہ کچھ اور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ان میںسب سے کار آمد اور دلچسپ کتاب سی پیک کے حوالہ سے ہے۔سلیم صافی کے نظریات کے حوالے سے ایک بات اہم ہے فوج پرتنقید نہیں کی۔

ان کے قلم کی کاٹ نے عسکری دوستوں کوہمیشہ تشویش میں رکھا۔ اب جب باجوہ صاحب ماضی کیداستان ہے۔ ان کے بارے میں سلیم صافی بہت کچھ لکھ سکتےہیں۔ مگر باجوہ کے ایک دوسرے صحافی دوست کا خیال ہے کہوہ جنرل باجوہ پر ضرور لکھیں گے اور ان کا خیال ہے ۔ وہپسند کریں گے جنرل باجوہ کا مکمل احتساب ہو۔ جواب ممکننظر نہیں آتا۔ اب ان کی اگلی کتاب کس تبدیلی کی نویددیتی ہے ۔ سلیم صافی سچ بولنا آسان سچ لکھنا مشکل ہےاور یہ ہی تمہاری مشکل ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :