اناپرست انسان، بدترین انجام سے دوچار ہوتاہے

بدھ 6 مارچ 2024

Qasim Ali Shah

قاسم علی شاہ

وہ غضب کا مجسمہ ساز تھا ۔اس کی انگلیوں میں مہارت پھڑپھڑاتی اور جب وہ مٹی گوندھ کر اس کو مجسمے کی شکل دیتا تو لوگ اس کی صفائی اور خوب صورتی دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔رفتہ رفتہ پورے علاقے میں اس کی شہرت پھیلتی گئی ، اس کے پاس کام بھی بڑھنے لگااور ساتھ میں مال و دولت بھی۔لیکن اس کے رویے میں گھمنڈ اور باتوں میں نخوت جھلکناشروع ہوگئی۔شہرت کانشہ ہی ایساہے ۔

ایک بار کسی کو اس کی لت لگ جائے توپھر اس کی جان صرف موت کی صورت میں ہی چھوٹ سکتی ہے۔مجسمہ ساز کو لگا کہ اپنے علاقے میں تو کیاپور ے ملک میں اس جیسی مہارت کسی کے پاس نہیں۔وقت گزرتا رہا اوراس نے خوب دولت اور شہرت کمالی۔عمر رسیدہ ہوجانے کے بعد ایک دن اس کوموت کا خیال آیا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔”تو کیا مجھے اپنا یہ سب مال و دولت اور شہرت چھوڑنی پڑے گی؟ نہیں نہیں!ایسا نہیں ہوسکتا ، میں ہمیشہ یہاں رہوں گا ، میرے پاس اتنی مہارت ہے کہ موت سے بچ سکتاہوں۔

(جاری ہے)

“اور پھراس نے اس منصوبے پر کام شروع کرلیا۔اس نے اپنے ہم شکل دس شاہ کارقسم کے مجسمے بنائے ۔مجسموں اور مجسمہ ساز کے درمیان بس ایک ہی فرق تھا۔ اس کی سانسیں چل رہی تھیں اور مجسمے بے جان تھے۔ایک دن موت کے فرشتے نے اس کے دروازے پر دستک دی ، وہ دوڑا دوڑا اپنے مخصوص کمرے میں آیا اورمجسموں کے درمیان کھڑاہوگیا تاکہ وہ پہچانا نہ جائے۔فرشتہ اس کے کمرے میں آیاتو وہاں مجسمہ ساز کے بہت سارے ہم شکل لوگ کھڑے تھے۔

فرشتہ اس کی چالاکی سمجھ گیا،پھراس نے بھی ایک چال چلی۔وہ بولا:”تمھارے ہاتھوں میں کیا شان دار ہنر ہے ۔ تمھارا کوئی جواب نہیں لیکن اس دوسرے مجسمے میں تم سے ایک بڑی غلطی ہوئی ہے۔“ مجسمہ ساز سانس روک کر کھڑا تھا، اس نے جیسے ہی اپنے کام پر تنقید سنی تو اس کی رگیں تن گئیں ، وہ باہر آکر بولا:”نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، میں اس زمانے کا سب سے بڑا مجسمہ سازہوں۔

میرے کام میں کوئی نقص ہوہی نہیں سکتا۔“اس نے فرشتے کو دیکھا تو وہ ہنس رہا تھا ۔مجسمہ ساز سمجھ گیا کہ اس کی چال الٹی پڑچکی ہے۔فرشتہ بولا:”تمھاری سانسیں ختم ہوچکی ہیں،چلواب تمھارے جانے کاوقت آگیا ہے۔“
”انا“دیکھنے میں تو تین حروف پر مشتمل ایک لفظ ہے لیکن یہ منفی طورپر اتنا خطرناک اور طاقتور ہے کہ یہ انسان کے رشتوں اور تعلقات کو تباہ کرکے رکھ دیتاہے۔

اپنی بائیس سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں میں ہزاروں لوگوں سے ملا ہوں اور ان کی نفسیات سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔مجھے معلوم ہوا کہ یہ تمام لوگ دوطرح کے تھے اور اب بھی ہیں۔ایک قسم انا والے لوگ ہیں اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جنھوں نے اپنی انا کو منظم کیا ہواہے۔میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ تمام لوگ جنھوں نے اپنی انا کوکنٹرول کیا ہوا ہے، جو عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہیں اورکسی بھی صورت حال کو قبول کرلیتے ہیں، ان کی زندگی میں سکون ، اطمینان اور خوشی زیادہ ہوتی ہے۔

یہ لوگ جلدی ترقی کرجاتے ہیں ۔ان کے تعلقات بھی زیادہ اور پختہ ہوتے ہیں اور یہ زندگی میں کبھی اکیلے نہیں رہتے۔
جبکہ اس کے برعکس ہر وہ شخص جو اَنا سے بھرا ہواہے۔جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا اور جو خود کو عقل کل سمجھتا ہے ۔جو اپنے علاوہ باقی تمام لوگوں کو غلط سمجھتا ہے اور اس کو یہ زعم ہوتاہے کہ اگر میں نہ ہوتاتو نہ جانے اس دنیا کا کتنا نقصان ہوتا، ایسے لوگوں کو میں نے بے چین، بے سکون اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار دیکھاہے۔

’انا‘ کیاہے؟
’انا‘دراصل اپنے بارے میں ایک تصور کا نام ہے جو کہ غلط فہمی پر مبنی ہوتاہے۔ہر انا والا انسان سمجھتاہے کہ ”میرے پا س جو عہدہ ہے ، یہ دنیا کا سب سے طاقتور عہدہ ہے“،یا ”میرے پاس موجود علم ،کسی کے پاس نہیں “،” یا میرے پاس جو قابلیت اور تجربہ ہے وہ انمول ہے۔“حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔قرآ ن کریم میں اللہ ارشاد فرما تاہے کہ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والاہے۔

(سورة یوسف: 76)کوئی انسان اگر یہ سمجھتا ہے کہ میں ہی اس دنیا کا واحد اور منفرد انسان ہوں تو یہ اس کی اپنی عقلی کمزوری ہے۔یہ اس قدر عام اور خطرناک نشہ ہے جوایک آئی جی کے عہدے پر بیٹھنے والے انسان کے دل میں بھی پیداہوسکتاہے اورایک عام کانسٹیبل میں بھی۔آپ کبھی سیکرٹریٹ جائیں اورکسی افسر کے ساتھ کام ہو تو اس کے دفتر کے باہر بیٹھا چپڑاسی جس کی نہ تعلیم زیادہ ہے ، نہ خاندانی حیثیت لیکن اس کے باوجود بھی وہ اس قدر انا سے بھرپور ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کو یہ تاثر دیتاہے کہ سیکرٹری تو میں ہی ہوں، کیوں کہ میری اجازت کے بغیر کوئی سیکرٹری صاحب تک نہیں پہنچ سکتا۔

’انا‘انسان کے اندر اس لیے پیداہوتی ہے کیوں کہ وہ تنگ نظری کا شکار ہوتاہے۔آپ غور کریں اللہ نے یہ پوری کائنات بنائی ہے ، جس میں بے شمار گلیکسیز ہیں۔ان گلیکسیز میں ہمارا سولر سسٹم ہے جس میں ایک سورج اورکئی سارے سیارے ہیں۔ان سیاروں میں ایک سیارہ زمین ہے۔جس میں سات ارب انسان اور ڈیڑھ سو سے زائد ممالک ہیں۔ان میں ایک ملک پاکستان ہے جس میں بے شمارشہرآباد ہیں اور ان میں بسنے والا ایک عام انسان ہے۔

آپ پوری کائنات سے لے کر اس عام انسان تک کے سفر پر ایک نظر دوڑائیں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ ایک عام انسان کاعلم ، اس کی سوچ اور اس کا تجربہ کس قدر محدود ہے ۔
جب انسان کے پاس ایسی عقل نہیں جس کو کل کہاجائے، جب اس کا ذہن رب کی پیداکردہ اس کائنات کااحاطہ نہیں کرسکتا تو پھر وہ کس بنیاد پر خود کودوسروں سے افضل و برتر سمجھتا ہے اور انا کاشکار ہوتاہے!!
یادرکھیں کہ ’انا‘ایسی چیز ہے جس کو مکمل طورپر ختم نہیں کیاجاسکتا، البتہ اس کومنظم کیا جاسکتاہے۔

آپ اگر دین کے ارکان پر نظر دوڑائیں تو ان کامقصد ہی انسان کی ’انا‘کو ختم کرنا ہے۔آپ نماز کو ہی لے لیجیے ۔آپ نماز میں رکوع کرتے ہیں، سجدہ کرتے ہیں ،سجدے میں اپنے ماتھے کو زمین پر رکھتے ہیں اور ماتھا وہ مقام ہے جہاں پر انسانی ذہن کا وہ حصہ ہوتاہے جس کی بنیاد پر وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرتاہے۔وہ اپنی ناک زمین پر رکھتاہے جو کہ عزت اور مرتبے کی علامت ہے۔

جب اس قدر قیمتی چیزوں کو انسان خاک آلود کرلے تو پھر اس کے اندرکون سی انا ، کہاں کاتکبر۔
آپ حج کو لے لیں۔حج میں انسان تمام طرح کے کپڑے اتارکر صرف دوچادریں اوڑھتاہے۔پھر وہ سات چکر لگاکر طواف کرتاہے اوراس کے بعد سرمنڈھواتاہے۔جب ایک انسان اپنا پسندیدہ لباس ہی ترک کرلے، جب وہ اپنے سر کے بال ہی منڈھوادیں جو کہ خوب صورتی کی علامت ہوتے ہیں جب وہ سات مرتبہ اس رب ذوالجلال کے گھر کے پھیرے لے لے تو پھر اس کے اندر انا کیسی آسکتی ہے ، اس میں گھمنڈ کہاں سے آسکتاہے!!
ہاں ! جو انسان عبادت گزار ہے لیکن اس کے باوجود بھی متکبر اوراناپرست ہے توپھر یہ اس کی عبادت پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اس کو اپنے رویے پر غورکرنا چاہیے۔
”اناپرست“ دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ہر وہ شخص جو اپنی اناکے لیے دوسروں کو اپنے سامنے جھکنے پرمجبورکرتاہے تو پھر وہ انسانوں کے دل میں جگہ نہیں بناسکتا۔انا پرست انسان سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتاہے۔کیوں کہ وہ دوسروں کوسنتانہیں، اس کو لگتاہے کہ میں ہی عقل مندہوں ۔اب آپ غورکریں تو انسان اور جانور کے درمیان فرق ہی صرف سوچنے سمجھنے کاہے اور اگر کسی انسان کی یہ صلاحیت ختم ہوجائے توپھر وہ انسان کیسے رہے گا!!
انا پرست انسان کواپنی خامیاں نظر نہیں آتی کیوں کہ وہ تنقید برداشت نہیں کرسکتا۔

تنقید کو وہ اپنی ذات پر حملہ تصور کرتاہے۔نتیجتاً اس کی کمزوریاں پختہ ہوتی جاتی ہیں ، وہ بار بار ٹھوکریں کھاتاہے اور کئی سال گزرنے کے باوجود بھی وہیں کھڑارہتاہے جہاں سے وہ چلا تھا۔
انا پرست انسان ہمیشہ تنقیدی سوچ رکھتاہے۔وہ دوسروں کی حوصلہ افزائی یا ان کے لیے تحسین آمیز الفاظ استعمال نہیں کرتا۔کیوں کہ وہ خود کو افضل اور کامل سمجھتا ہے اور اس کی نظر میں باقی سب انسانوں کے کام عیب سے بھرپور ہیں۔

اس لیے وہ کسی بھی انسان کی قابلیت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس میں چن چن کر نقص نکالتاہے۔
اناپرست انسان گھمنڈ کی اعلیٰ کیفیت میں ہوتاہے۔اس کی ناک بہت لمبی ہوتی ہے اور جب وہ کامیابی کی سیڑھی پر چڑھتاہے تو اس کی ناک سیڑھی کے پائے دان میں پھنس جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں چڑھ سکتا۔جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا۔

ان تمام نقصانات کی وجہ سے لوگ اس سے دور ہوجاتے ہیں، لوگ اس سے تعلق رکھنا نہیں چاہتے، وہ چوں کہ لچک دار رویہ نہیں رکھتا اس لیے اس کے سامنے بند دروازے بھی نہیں کھلتے اور یوں وہ بھری زندگی میں بھی اکیلا رہ جاتاہے۔
تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ایسا شخص بہت ساری نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوتاہے۔سب سے پہلے وہ اینزائٹی کے مرض میں مبتلا ہوتاہے،اس کے بعد ٹینشن میں ،پھر بلڈ پریشر میں ،پھر شوگر اور آخر کاردل کا مریض بن کر بہت جلد زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے۔

مولاناجلال الدین رومی کہتاہے کہ”انا،خدااور بندے کے درمیان پردہ ہے۔“البتہ جوشخص اس پردے کو گرادیتاہے تو وہ اللہ کے قریب ہوناشروع ہوجاتاہے۔
ہر وہ شخص جو شکرگزاری کی کیفیت پید اکرلے تو اس کی اناکنٹرول میں آجاتی ہے۔کیوں کہ اس کو یقین ہوتاہے کہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ یہ رب کریم کی عطا ہے ۔

جب ایک انسان اپنی ذات کی نفی کرلیتا ہے تو پھر اس کی انا اس پر قبضہ نہیں جماسکتی۔
ہر وہ شخص جو اپنے گھر والوں کے ساتھ مہربان رویہ رکھتاہے تواس کی انا اس پر قابض نہیں ہوسکتی۔کیوں کہ گھر میں رہنے والے لوگ یا تو انسان کی بیوی ، بہن ، ماں ہوتی ہے یاپھر بچے ۔تجربے اورمشاہدے کی بنیاد پر خواتین ،مردوں سے کمزور ہوتی ہیں ۔اسی طرح بچوں نے بھی باہر کی دنیا نہیں دیکھی ہوتی ، ان کی عقل بھی کمزور ہوتی ہے ۔

اب جو شخص اپنے گھروالوں کے ساتھ مہربانی ،نرم دلی اور برداشت کا رویہ رکھے گاتو اس کے اندر اناسرنہیں اٹھائے گی اسی وجہ سے سردار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
” تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہترہوں۔“(سنن الترمذی:3895)
اپنے سے کم فہم انسان کے ساتھ نرمی کا مظاہرہ کرنا ہی دراصل عقل مندی ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ” عقل کی زکوٰة ،جاہل کی بات کو برداشت کرنا ہے۔“جبکہ ہم کم فہم انسان کو اپنی پوری عقل دکھاکر یہ ثابت کرتے ہیں کہ تمھارے اندر عقل نہیں ہے جو کہ انتہائی غلط طریقہ ہے۔
ہر وہ شخص جس کو یہ سمجھ آجائے کہ قبر میری منتظر ہے تو پھر اس کے اندر انا نہیں ہوتی۔اسی وجہ سے دین میں جنازہ پڑھنے کی ترغیب ملتی ہے تاکہ انسان کویہ یاد رہے کہ میں نے ایک دن اس مٹی میں ملنا ہے۔

اسی طرح سلام میں پہل کرنا، دوسروں کو آگے بڑھانا، دوسروں کو بہتر تصور کرنا اور ہر ایک کے لیے دعا کرناایسی خوبیاں ہیں جن کی بدولت انسان کی انا کنٹرول رہتی ہے۔
آپ اگر ذرا غور کرلیں تو اس معاشرے میں آپ کواناوالی ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جن کا انجام انتہائی بدترین تھا۔یہ وہ ہی لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ میں مرتے دم تک اپنے عہدے ، اپنے منصب پر رہوں گا۔

یہ وہی لوگ تھے جو اپنے سے طاقت ور کو سرجی اور صاحب جی کہتے تھے لیکن جب کبھی کوئی کمزور انسان ان کی دسترس میں آجاتاتو پھر اس کو ایسا تڑپاتے کہ وہ گڑگڑانے پر مجبور ہوجاتا اور یہ چیز ان کی انا کوتسکین پہنچاتی ،لیکن آج وہ اپنی انا کی وجہ سے تمام لوگوں کے لیے ایک عبرت بنے ہوئے ہیں۔
اپنی ذات کو عبرت بننے سے بچائیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :