
تحریک عدم اعتماد،کھیل شروع!
ہفتہ 19 فروری 2022

جنید نوازچوہدری (سویڈن)
(جاری ہے)
اس کے علاوہ کئی اور بھی تجاویز زیرغور ہیں مگر اس وقت عمران خان کسی بھی طرح پہلے پارٹی کے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو کہ اس وقت بہت مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے دو گروپ ہیں جہانگیر ترین گروپ اور ان ارکان کا گروپ جو عثمان بزدار سے سخت نالاں ہیں اور تحریک عدم اعتماد کا شروع ہونے کا امکان بھی پنجاب سے ہی ہے اور یہ بات عمران خان شروع دن سے ہی جانتے ہیں۔
اسی لیے عمران خان پنجاب کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اپنے لاہور کے دورے کے دوران ایک مرتبہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کرنا چاہتے تھے اور چوہدری شجاعت کی تیمار داری کر نا چاہتے تھے جس کے لیے انہوں نے قریباً چار مرتبہ پیغام بھی بھجوایا مگر انہیں یہ کہ کر ٹال دیا گیا کہ ہماری اسلام آباد میں پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ ہے جس کی وجہ سے وہ مصروف ہیں اس لئیے یہ ملاقات ہونا مشکل ہے۔اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان چوہدری برادران سے کیوں ملنا چاہ رہے تھے اور چوہدری برادران نے اْن سے ملنے سے انکار کیوں کیا؟ تو جیسا میں نے پہلے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پنجاب سے شروع ہو گی جس کی ن لیگ نے بھرپور تیاری شروع کر دی ہے اور آصف علی زرداری کی طرف سے بھی مکمل گرین سگنل ہے۔ اس وقت حمزہ شہباز اور خواجہ سعد رفیق، چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ مکمل رابطے میں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ن لیگ کو پی ٹی آئی پنجاب کیقریباً 25 ارکانِ اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہے جو اگلے الیکشن میں ن لیگ کے ٹکٹ کی یقین دہانی چاہتے ہیں اور خبر ہے کہ اْنہیں ہر طرح کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ پنجاب میں تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں پرویز الٰہی کو پنجاب کے وزاتِ عالیہ کا ایک مظبوط امیدوار تصور کیا جا رہا ہے جس پر ن لیگ اور آصف علی زرداری میں مکمل اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ اسی سلسلے میں کچھ دن پہلے میاں شہباز شریف نے رات کو اچانک خواجہ سعد رفیق، رانا ثنااللہ اور کچھ اہم پارٹی ممبران کو فون کر کے فوراً ملاقات کی اور آٹھ ممبران پر مشتمل کمیٹی بنا کر مختلف شہروں کو روانہ کیا گیا جہاں وہ پی ٹی آئی کے اپنی پارٹی سے ناراض مختلف اراکین سے ملاقات کریں گے اور تحریک عدم اعتماد کے لئیے ان سے مدد لی جائے گی۔ یہ تمام خبریں عمران خان تک پہنچ رہی ہیں اور عمران خان کے قریبی ساتھی اْن کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ اپوزیشن کے اس وار کو ناکام کرنے کے لئیے آپ خود چوہدری پرویز الٰہی کو وزیرِ اعلٰی نامزد کر دیں مگر عمران خان مزید وزارتیں دے کر ناراض پارٹی اراکین کو منا کر پارٹی کو مظبوط کرنے پر مصر ہیں۔ مگر میرے خیال میں یہ حربہ کوئی اتنا کار گر ثابت نہیں ہو گا کیونکہ پنجاب کی کابینہ پہلے ہی 37 وزرا پر مشتمل ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد کا بینہ میں وزارتوں کا حجم 11 فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکتا جو 41 بنتا ہے۔ کیونکہ ناراض اراکین کی تعداد کافی زیادہ ہے لٰہذا میرے خیال میں یہ حربہ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لئیے قوی امکان یہ ہے کہ اگر چوہدری برادران کے روابط ن لیگ کے ساتھ اسی گہرائی کے ساتھ برقرار رہے جس کی وجہ سے اْنہوں نے عمران خان کی ملاقات کو ٹال دیا ہے تو پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو سکتی ہے اور پھر اس کے بعد وفاق میں اسپیکر نیشنل اسمبلی کو ٹارگٹ کیا جائے گا اور اْن کے خلاف تحریکَ عدم اعتماد پیش کی جائے گی اور اگر وہ بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو اس صورت میں عمران خان کے پاس دو ہی راستے بچیں گے اور وہ یہ کہ یا تو عمران خان استعفٰی دے دیں یا اسمبلیاں توڑ دیں اور اسمبلیاں توڑنے کی صورت میں نئے الیکشنز ہوں گے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ن لیگ کی ایک بڑی تعداد تو ایسی صورتِ حال کے لئیے پوری طرح تیار ہے مگر پیپلز پارٹی نئے الیکشنز کی طرف ابھی نہیں جانا چاہتی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی پہلے اپنے آپ کو پنجاب میں مظبوط کرنا چاہتی ہے جس کے لئیے اسے کچھ وقت درکار ہے۔ پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونے کی ایک بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ وہ مولانا فضل الرحمان اور میاں نواز شریف کے استعفے دینے کے سخت موقف کو ماننے کے لئیے تیار نہیں تھی کیونکہ پیپلز پارٹی اور خاص طور پر آصف علی زرداری یہ بات جانتے تھے کہ اْن کی پارٹی کی پوزیشن پنجاب میں خاصی کمزور ہے اور نئے الیکشنوں کی صورت میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو سکے گے اور ن لیگ دوبارہ شاید بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہو جائے گی اور اْنہیں ایک بار پھر حکومت سے باہر رہنا پڑے گا جو بلاول بھٹو زرداری اور خود آصف علی زرداری کے لئیے قابلِ قبول نا تھا اس لئیے پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں میں موجود رہ کر تحریکِ عدم اعتماد لانے کا موقف اپنایا اور شنوائی نا ہونے کی صورت میں پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کی اور وقت نے ثابت کیا کہ اس سے پیپلز پارٹی نے کافی فائدہ حاصل کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو پیپلز پارٹی کے تحریکِ عدم اعتماد کے فارمولے پر ہی متفق ہونا پڑا ہے جو کہ میرے خیال میں ایک بڑے عرصے کے بعد پیپلز پارٹی کو حاصل ہونے والی ایک بڑی کامیابی ہے جس سے پیپلز پارٹی لی پوزیشن خاصی مظبوط ہوئی ہے،اس دوران میں ایک تو پیپلز پارٹی نے پورے ملک میں اپنے اراکین کو متحرک کیا اس کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر کے الیکشنز میں 11 نشستیں حاصل کیں، لاہور میں پرویز ملک کی خالی ہونے والی نشست کے ضمنی الیکشن میں جنرل الیکشنز سے قریباً 28 ہزار زیادہ ووٹ لے کر سب کو حیران کر دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں دوبارہ قدم جما لئیے مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے مقصد کی طرف بڑھ ضرور رہے ہیں اور اسی لئیے آصف علی زرداری ابھی ایک دم نئے الیکشنز نہیں چاہتے کیونکہ وہ کچھ وقت مزید چاہیتے ہیں تاکہ نئے الیکشنز کی صورت میں پیپلز پارٹی اتنی سیٹیں ضرور جیت سکے کہ انہیں وفاق میں اگلی مرتبہ سیاسی جوڑ توڑ جس کے وہ ماہر ہیں کر کے شاید حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔ بہر کیف یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مگر اس وقت کی جو حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی تیاری ہے وہ سیاست کے چار بڑے افراد میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور میاں شہباز شریف کی طرف سے ہی کی جا رہی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ بس “اشارے” کا انتظار ہے اور امکان یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فروری کے آخری ہفتے سے یہ تحریک عدم اعتماد پنجاب سے شروع ہوگی اور کامیابی کی صورت میں مارچ کے آخر تک اسپیکر نیشنل اسمبلی تک پہنچے گی اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے مگر سیاست کی بساط پر تحریک عدم اعتماد کا کھیل بحرحال شروع ہو چکا ہے!۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے کالمز
-
تحریک عدم اعتماد،کھیل شروع!
ہفتہ 19 فروری 2022
-
کنٹینر پہ کھڑا وزیرِاعظم!
جمعرات 27 جنوری 2022
-
غریب عوام کا برانڈ ،وزیراعظم یا کوئی اور!
منگل 4 جنوری 2022
-
سقوطِ ڈھاکہ، زمینی حقائق کیا تھے؟
جمعہ 17 دسمبر 2021
-
مہنگائی کا طوفان، حقیقت کیا ہے؟
جمعہ 3 دسمبر 2021
-
ڈاکٹر عبدالقدیر کا احسان، ناقابل تسخیرپاکستان!
پیر 11 اکتوبر 2021
-
کیا بحیثیتِ قوم ہم گدا گر ہیں؟
بدھ 15 ستمبر 2021
-
افغانستان کی 20 سالہ جنگ اور طالبان؟
منگل 24 اگست 2021
جنید نوازچوہدری (سویڈن) کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.