دیانت اور فرض شناسی جرم ٹھہری

جمعرات 28 مارچ 2024

Malik Muhammad Salman

ملک محمد سلمان

4 فروری کو ایچی سن کالج کی طرف سے نئے پرنسپل کی تقرری کیلئے درخواستیں طلب کی گئی۔ایسے میں موجودہ پرنسپل مائیکل تھامسن کو اس بات کا ادراک ہوچکا تھا کہ اس کو دوبارہ پرنسپل نہیں رکھا جارہا۔اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے تھوڑا عرصہ قبل سیاسی مداخلت کا الزام لگا کر استعفیٰ دینا واضح بدنیتی ہے۔گورنمنٹ کے خلاف تنقید کا کوئی موقع ضائع نہ جائے کی دھاک لگائے بیٹھی اپوزیشن اور حکومت مخالف یوٹیوبرز کی تو جیسی چاندی ہوگئی انہوں نے اس واقع کو سیاسی رنگ دے کر حکومت اور وفاقی وزیر احد چیمہ پر الزامات کی بھرمار کردی۔

انتہائی غیرمناسب اور لغو قسم کی میمز بناکر شئیر کرنا شروع کردیں جن کو بیان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
 سرکاری نوکری میں ایک شہر سے دوسرے شہرآئے روز کی ٹرانسفر پوسٹنگ سے بچوں کا تعلیمی حرج ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

ایسا ہی کچھ معاملہ وفاقی وزیر احد چیمہ کے بچوں کے ساتھ ہوا جب انکی اہلیہ صائمہ احد کی ٹرانسفر لاہور سے اسلام آباد ہوئی تو انہوں نے بچوں کو بھی اپنے ساتھ شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے معروف تعلیمی ادارے کو دراخواست کی کہ انکو عارضی طور پر بچوں کو اسلام آباد کے سکول میں شفٹ کرنے کی اجازت دی جائے۔ پرنسپل مائیکل تھامسن نے اجازت نامے کے ساتھ تین سال کی مکمل فیس مشروط کردی۔ صائمہ احد نے پرنسپل سے درخواست کی کہ انہوں نے اسلام آباد میں بھی بچوں کی فیس ادا کرنی ہے اس لیے ڈبل فیس ادا کرنا ان کیلئے مشکل ہو جائے گا۔

پرنسپل نے فیس میں رعایت دینے سے انکار کیا تو انہوں نے گورنر سے درخواست کی جس پر بورڈ آف گورنرز کی یکم دسمبر 2022کی میٹنگ میں اکثریتی ممبران نے اس بات کے حق میں ووٹ دیا کہ سرکاری ملازمین کے بچوں کو لانگ لیو پر فیس معاف کی جائے۔اکژیت کی رائے اور اخلاقی جواز کومد نظر رکھتے ہوئے گورنر پنجاب نے نہ صرف احد چیمہ کے بچوں کو فیس معاف کی بلکہ تمام سرکاری ملازمین کیلئے بھی اسی پالیسی کا حکم دیا کہ جس سیشن میں طالب علم تعلیمی اور بورڈنگ سہولیات حاصل نہیں کرتا اس عرصے میں اس پر فیس کا اضافی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

بورڈ آف گورنرز کو موجودہ حکومتی بورڈ کا طعنہ دینے والوں کی لاعلمی کا یہ لیول ہے کہ انکو شاید معلوم نہیں کہ یہ بورڈ آف گورنرز 2019 میں تحریک انصاف کی حکومت میں بنا تھا۔
پرنسپل صرف تعلیمی سرگرمیوں اور کیمپس ڈسپلن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہوتا ہے نہ کہ فنانشل معاملات کا کسٹوڈین۔اس لیے فیسوں کے معاملے میں ضد کرکے مائیکل تھامسن نے اختیارات سے تجاوز کیا اور محض اپنی ایکسٹیشن کے حصول کیلئے تاریخی حیثیت کے حامل تعلیمی ادارے کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔

اس سلسلے میں باقائدہ انکوائری کمیٹی تشکیل دے کر ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے مرتکب افراد کے خلاف ضروری کاروائی عمل میں لائی جائے ناکہ پریشر میں آکر پرنسپل کی ایکسٹیشن کی خواہش کو پورا کیا جائے۔
 دوران سروس تمام ٹریننگ کورسز کا ٹاپر، حکومت اور افسران بالا سے ہمیشہ آؤٹ سٹینڈنگ رپورٹس لینے والا احد چیمہ جس پر ہم سب کو فخر ہونا چاہئے۔

احد چیمہ جس کے کے کریڈٹ پر بہت سے مفادعامہ کے پراجیکٹ ہیں۔ ”پڑھا لکھا پنجاب مہم“ کو کامیاب بنایا۔ایل ڈی اے جیسے بدنام محکمے کو ڈیجیٹلائز کرنے اور عوامی مفاد کیلئے اصلاحات کا سہرہ بھی احد چیمہ کو جاتا ہے۔ میٹرو بس، اورنج لائن ٹرین، لینڈ ریکارڈ کمپوٹرائزیشن، نندی پور پاور پراجیکٹ، سولر انرجی کے منصوبے اور آشیانہ ہاؤسنگ سکیموں میں ناصرف گورنمنٹ کواربوں روپے کی بچت کروائی بلکہ تمام منصوبے قبل از وقت مکمل کیے۔

ایشیاء کے دوسرے طویل ترین فلائی اوور کی ریکارڈ 230دن میں تعمیربھی انکا ہی کارنامہ ہے۔ لاہور میٹرو بس کا 11 ماہ میں مکمل ہونا ایک معجزہ  تھا جو احد چیمہ جیسے ایماندار افسر کی بدولت ہی ممکن ہوا۔احد چیمہ کی ان تمام خدمات کے بدلے ہم نے انہیں کیا دیا؟ متعدد منصوبوں کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے اور اربوں روپے کی بچت کرنے والے افسر کی قابلیت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے قید وبند کی صعوبتوں سے دوچار کیا۔

  احد چیمہ کو 38 ماہ پابند سلاسل کرکے ایک روپے کے کرپشن نہ ثابت کرسکے۔ تاریک دور کے خاتمے کے بعد باعزت رہا ہوگئے لیکن اس بے توقیری پر پاکستان کی سپرئیر سروس سے استعفیٰ دے دیا۔شہباز شریف کی یہ خوبی ان کے دشمن بھی مانتے ہیں کہ وہ ”ریسٹ لیس“کام کرتے ہیں اور اپنے ”سرکل“ میں بھی ایسے لوگوں کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔شہباز شریف نے دلبرداشتہ احد چیمہ کو اس بات پر قائل کرلیا کہ پاکستان اس وقت مشکل حالات میں ہے اور ایسے میں پاکستان کو احد چیمہ کی ضرورت ہے۔

جب وطن عزیز کی بات آئی تو احد چیمہ انکار نہ کرسکے۔ابھی وہ پہلی خواری سے باہر نہیں آئے تھے کہ ہم نے اس کی ایمانداری کو غربت کا نام دے کر بدنام کرنا شروع کردیا۔ جو ذلت آمیز سلوک کیاگیا کیا اس کا مداوہ ہوسکتا ہے؟
اگر احد چیمہ اور انکی اہلیہ ایمانداری کی زندگی میں ڈبل فیس کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اس کے خلاف گئے تو کیا یہ ان کا جرم ہے۔کیا وہ بھی دوسرے چند بیوروکریٹ کی طرح بن جائیں۔ جن کو اپنی دولت کا شمار بھی نہ ہو اور بھاری بھرکم فیسیں دینا اپنا فخر سمجھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :