سیاست نامہ
ہفتہ 19 فروری 2022
ایک مقبول سیاستدان ہر وقت موقع کی تاک میں رہتا ہے کہ کب اس کا مخالف غلطی کا مرتکب ہو اور وہ فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔ نوازشریف نے ایسا ہی موقع عمران خان کو فراہم کیا. میاں صاحب اور آسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے عمران خان کے لیے نعمت غیر مترقبہ بن گئے.
ن لیگ اور پیپلز ہارٹی نے عمران خان کو کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ وہ انہیں ایک کھلاڑی کی طرح ٹریٹ کرتے تھے. نوازشریف بڑے تحقیرآمیز انداز میں کہا کرتے تھے. "جاؤ تم کرکٹ کھیلو, سیاست میں تمہارا کیا کام" .
یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
(جاری ہے)
خان صاحب عوامی مقبولیت کے عامل شخص تھے۔ ان کو صرف ایک چانس کی ضرورت تھی۔ جو نوازشریف کے گھمنڈ کی بدولت انہیں مل گیا۔ وزیراعظم عمران خان اس صدی کے خوش قسمت ترین سیاستدان ہیں. جو میدان سیاست میں بیس سال سے جدوجہد کر رہے تھے. مگر عوام کو متاثر کرنے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے تھے. 2011 میں پہلے پیپلز پارٹی اور بعد میں نوازشریف کا طاقتور قوتوں سے سینگ لڑانا عمران خان کے لیے نیک فال ثابت ہوا. اور وہ سیاست میں تیسری بڑی قوت بن کر سامنے آئے. خان صاحب جو ایک وقت دلبرداشتہ ہوکر سیاست سے علیحدگی کے بارے میں سوچ رہے تھے. انہیں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے نئی بوتل میں پرانی شراب کے طور پر پیش کردیا. 2011 کے جلسے کو ہدایت کار نے جس کمال مہارت سے آرگنائز کرایا. اس کی کامیابی نے عمران خان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا. اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا.
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد اس بات کا یقین ہوچلا تھا۔ کہ جمہوریت کا پودا تناور درخت بن جائے گا۔ مگر پہلے میموگیٹ اور بعد میں ڈان لیکس کے غیر ضروری تنازعات میں الجھ کر دونوں بڑی پارٹیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے لیے اپنے آپ کو ناقابل قبول بنا دیا۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کا بچکانہ بیان بھی عمران خان کے لیے بڑا مبارک ثابت ہوا۔ گوکہ نواز شریف اس دھمکی آمیز بیان کے بعد زرداری صاحب سے فاصلے پیدا کرچکے تھے۔ مگر وہ باجوہ صاحب کو پہلی ہی میٹنگ میں ناراض کر بیٹھے. نوازشریف نے انہیں غیر اہم نشست پر بٹھا دیا. جس کو وسیع پیمانے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا. لہذا "ان" کے دل کی میل صاف نہ ہوسکی۔
سیاست کے اس بے رحم کھیل میں صوفے, ٹوپی, کرسی اور سیلیوٹ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اگر اشرافیہ ان غیر اہم معاملات میں الجھ جائے تو ملک نہیں چلتے۔
وزیراعظم بھی آج کل انہی تنازعات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ حکومتی امور اور اہم تعیناتیوں اور تقرریوں میں علم الاعداد کو لے آتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ان کی کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے۔ سول معاملات میں تو ایسی باتیں قبول کی جاسکتی ہیں۔مگر عسکری تعیناتی میں ایسا کرنا انتہائی پرلے درجے کی بےوقوفی ہے۔ جو خان صاحب نے جنرل ندیم انجم کی تعیناتی میں غیر ضروری رکاوٹ ڈال کر کی۔ اس حرکت پر نہ صرف طاقتور شخص کی سبکی ہوئی. بلکہ عمران خان کا اپنا ستارہ بھی گردش میں آچکا ہے.
یہ بات سب جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ خیمے میں اپنا سر ڈال چکی ہے۔ اس کے لیے واپسی کا راستہ نہیں بچا۔ جو غلطیاں نواز اور زرداری نے کیں, خان صاحب کو بحرحال ان سے بچنا چاہئے تھا۔ مگر وزیراعظم کی پرکشش اور جاہ و جلال والی کرسی پر بیٹھ کر سیاستدان اپنے آپ کو شہنشاہ عالم سمجھنے لگتا ہے۔اس کی سوچ ہوتی ہے کہ کسی بادشاہ کی طرح ساری عمر کرسی پر چپکا رہے۔ اور اسے کوئی اتار نہ سکے۔ اس کے علاوہ وہ گھمنڈ میں آکر اپنے سہولت کاروں کو بھی ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہی اس کی فاش غلطی ہوتی ہے۔جب وزیراعظم اپنے حکومتی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے اپوزیشن کو رگڑا دینے پر تواناہیاں صرف کرے گا۔ تو ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ اور معیشت کب درست ٹریک پر چڑھے گی۔ جب عسکری کے ساتھ ساتھ خارجہ امور, معیشت, تجارت اور اندرونی سیکورٹی بھی فوج نے ہی دیکھنی ہے۔ تو وزیراعظم صاحب کس مرض کی دوا ہیں۔ ان کو بھاشن دینے اور سیلیوٹ مارنے کے لیے تو نہیں رکھا ہوا۔ خان صاحب سے زیادہ شہباز شریف اور بلاول بہترین منتظم ثابت ہوسکتے ہیں۔ کم از کم ٹنشن اور بدتمیزی کی موجودہ فضا سے تو چھٹکارا ملے گا.
اب اگر ن لیگ کی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو روز اول سے ہی نوازشریف کی جگہ شہبازشریف کو وزارت عظمی' کے لیے منتخب نہ کرنا نہ صرف شریف خاندان بلکہ ملک کے لیے بھی گھاٹے کا سودا ثابت ہوا۔ اگر میاں شریف ایسی غلطی نہ کرتے تو طیارہ سازش کیس اور فوج اور عدلیہ کے ساتھ غیر ضروری لڑاہیوں سے بچا جاسکتا تھا۔ ویسے بھی شہباز شریف بڑے تحمل مزاج اور دھیمے انداز کے سیاستدان ہیں. اور وہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے پنگا لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے. ان کا سب سے مائنس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہیں سکتے.
موجودہ بحرانی صورت حال سے نکلنے کا حل صرف عمران خان کے اپنے پاس ہے. وہ چاہیں تو بڑی آسانی کے ساتھ اپنی حکومت بچا سکتے ہیں. اس کے لیے ان کو اپنے نادان دوستوں کے مفت مشوروں سے بچنے کی راہ اختیار کرنا پڑے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد بشیر کے کالمز
-
سیاست نامہ
ہفتہ 19 فروری 2022
-
وزیراعظم اور جہاد
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
مری کا سانحہ
منگل 11 جنوری 2022
-
مدینہ مسجد کراچی اور سپریم کورٹ
جمعرات 6 جنوری 2022
-
حکومت کی عوام دشمن پالیسیاں
پیر 3 جنوری 2022
-
عمران خان کی حکومت اور ریاست مدینہ
جمعرات 30 دسمبر 2021
-
حکومت بحران کا شکار
منگل 28 دسمبر 2021
-
اپوزیشن کی سیاست اور بیچاری عوام
منگل 14 دسمبر 2021
محمد بشیر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.