پاکستان میں احساس ذمہ داری کا فقدان

جمعرات 9 جون 2022

Mohammad Raza Syed

محمد رضا سید

گزشتہ رات قریباً دس بجے کے قریب مال روڈ سے ٹھوکر نیاز بیگ کی طرف آتے ہوئے کیا دیکھا کہ سڑک کے عین وسط میں دہی کا ایک بڑا شاپنگ بیگ گرا ہوا تھا۔ یہ شاپنگ بیگ کوئی چار پانچ کلو وزنی رہا ہوگا جس سے کافی سارا مادہ تو سڑک پر بکھر گیا تھا اور بقایا ابھی ایک گولے کی مانند سڑک کے عین درمیان میں موجود تھا۔ سڑک پر ٹریفک حسب معمول رواں دواں تھی۔ ابھی میں معاملے کی نزاکت کو سمجھ ہی رہا تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار بیچارہ اس کی زد میں آکر پھسلا اور منہ کے بل زمین پر جا گرا۔

اس شخص کا موبائل فون اس سے پہلے زمین پر گرا اور سڑک پر لڑھکتا ہوا دور جا گرا۔ مزید یہ کہ اس شخص نے ہیلمٹ بھی نہیں پہن رکھا تھا۔ خوش قسمتی سے وہ کسی گاڑی کے نیچے آنے سے محفوظ رہا۔ لیکن اس کے سر اور چہرے پر  کئی زخم آئے۔

(جاری ہے)

  اس اثناء میں کافی لوگ جمع ہو گئے اور ایمبولینس کو فون کردیا گیا، اور لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک پر موجود رکاوٹوں کو بھی ہٹانا شروع کردیا تو ہم بھی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔

 
کئی سال پہلے مجھے خود بھی ایسا ہی حادثہ پیش آیا تھا جب میں موٹر سائیکل پر سواری کے دوران سڑک پر گرے ہوئے موبل آئل سے پھسل کر گرا تھا اور کئی دن تک چلنے پھرنے کے قابل نہ رہا تھا۔ 
ہمارے ملک میں لوگوں میں احساس ذمہ داری کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔ کسی بھی سطح پر عوام کو معاشرتی ذمہ داری کی تربیت یا آگاہی فراہم نہیں کی جاتی۔

  جس شخص نے بھی سڑک پر دہی کا بھرا ہوا شاپر گرایا تھا اگر وہ اسی وقت رک کر مناسب طریقے سے سب کچھ ٹھکانے لگا دیتا تو ایک شہری اس حادثے کا شکار نہ ہوا ہوتا۔ اس موٹر سائیکل سوار نے بھی اگر ہیلمٹ پہنا ہوتا تو کئی زخموں سے محفوظ رہ سکتا تھا۔ گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے لئے اگرچہ یہ زیادہ خطرناک مسئلہ نہیں تھا لیکن وہ بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حادثے کا سد باب کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے تھے۔

 
 اس کے لئے ضروری ہے کہ تعلیمی یا عوامی سطح پر تربیتی پروگرام ترتیب دیے جائیں جن سے عام عوام کو ذمہ دار شہری بنایا جاسکے۔ تعلیمی نصاب میں معاشرتی علوم کا ایک مضمون رکھا تو گیا ہے مگر اس میں ادھر ادھر کا جغرافیہ، نمک کی کانوں، کچھ جنگی وارداتوں، قومیت کے جذبات اور قائد اعظم کے چودہ نکات کی تکرار کے علاوہ کچھ نہیں۔ قومی ٹی وی پر بھی بنیادی شہری ذمہ داریوں کی ترغیب اور آگہی دی جاسکتی ہے۔

لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی ہیجان خیزی کبھی ماند ہی نہیں پڑتی۔ اقتدار کے ایوانوں میں چیرہ دستیوں اور ہیراپھیریوں کا بازار سدا گرم ہی رہتا ہے اور کسی طور اس سے فرصت نہیں مل پاتی۔ ہمارے ادیب بھی ان خشک موضوعات پر قلم اٹھانے سے کتراتے ہیں۔ محبوب کے عارض و گیسو، عاشق کے چاک گریباں، بسمل کی تڑپ کے قصے، وطن کی محبت اور مذہبی عقیدت کے قصوں میں جو سوز و گداز اور شیرینی و رعنائی ہے وہ بھلا ٹریفک قوانین ، کوڑا پھینکنے کے قاعدوں اور پانی کے استعمال کے ضوابط جیسے موضوعات میں کہاں؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :