قبائلی اضلاع میں کرپشن کی جڑ بہت مضبوط ہوچکی

ہفتہ 17 اگست 2019

Hussain Afridi

حسین آفریدی

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کو ختم کرنے کوشش کررہی ہے لیکن افسر شاہی کے سامنے بے بس ہے۔ انضمام سے پہلے قبائلی علاقہ بیورکریسی کے لیے سونے کی کان کی ماند تھا اور ایک پولیٹیکل ایجنٹ کی سیٹ کے لیے ایوان صدر سے بولی لگتی جو کہ ایک سال میں 60 کروڑ تک پہنچ چکی تھی جس میں خیبر ایجنسی ٹاپ پر تھی کہاں پر ایک نائب صوبیدار کو چیک پوسٹ کمانڈر لگانے کا بھی ایک کروڑ روپیہ لیا جاتا جو ہفتہ وار رشوت جمع کرنے میں سے دیا جاتا تھا ،کئی منافع بخش چیک پوسٹوں کے لیے صوبے کے گورنر کی سفارش پر ڈیوٹی لگائی جاتی۔

خیبر ایجنسی میں پاک افغان شاہراہ سے مہینے کی کروڑوں روپے کی رشوت وصولی کی جاتی رہی جس میں خاصہ دار کے افسروں سے لے کرسیاستدانوں تک یہ پیسے تقسیم ہوتے رہے ہیں۔

(جاری ہے)

(خیبرایجنسی کے سابق پولیٹیکل ایجنٹ کی ایک دلچسپ رپورٹ اغواء برائے؟؟؟۔۔۔ ثبوت کے ساتھ موجود ہے اس پر پھر کبھی تحریر کروں گا)

 آج بھی کم و بیش وہی صورت حال ہے پہلے تمام اختیارات پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس تھے آب کچھ لوگ اور بھی شریک ہوگئے۔

کرپشن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئی اور ٹھیکیداروں میں بھی ایک مخصوص ٹولے نے مافیا کی شکل اختیار کی ہے جو ترقیاتی کاموں کی بندر بانٹ محکمے کے اہلکاروں کے ساتھ مل کر اپس میں کرتے رہتے ہیں۔ ایک ٹینڈر کے لیے 52ٹھیکیداروں کی موجودگی میں صرف 4 ٹھیکیداروں نے حصہ لیا۔ آب ہوتا کیا ہے کہ اگر تمام 52 ٹھیکدار فارم لیکر ٹینڈر میں حصہ لیتے تو حکومت کو ٹینڈر فیس کی مد میں لاکھوں روپے جمع ہوتے دوسرا یہ کہ خفیہ ٹینڈر میں کم سے کم ریٹ دینے والے کو کام مل جاتا اور پاکستان کے خزانے کو زیادہ فائدہ ملتا لیکن تمام محکموں کے افسران رقم میں ٹینڈر ہونے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ 15 فیصد کمیشن تو ان کے لیے ر ہے۔

ایسا کوئی محکمہ نہیں جو ٹھیکیدار کو 15 فی صد کمیشن کے بغیر روک آرڈر جاری کریں یا اس کے ٹینڈر کو منظور کریں۔ اس کے علاوہ اگر کام کی لاگت زیادہ ہو اور اس کے لیے C-2 کیٹگری کے لائسنس کی ضرورت ہو تو محکمے کے اہلکار اس کو دو یا تین حصوں میں تقسیم کرکے اس کی لاگت کم کرکے C-5 یا C-6 کیٹگری کے لائسنس ہولڈر کو دے دیتے ہیں، جس میں کام کے معیار کو خراب کرکے ٹھیکیدار اور محکمہ کے اہلکار اپنا بنک بیلنس بڑھاتے رہتے ہیں۔

 سابقہ فاٹا رائج ایف سی آر کے تحت چلنے والے محکموں میں اب تک وہی پرانے ملازمین و افسران موجود ہونے کی وجہ سے صوبائی حکومت صوبہ خیبر پختونخوا میں رائج قوانین کے نفاذ میں ناکام نظر آ رہی ہے۔ حال ہی میں صوبائی حکومت کی جانب کرپشن کی روک تھام کے لیے صوبے کے تمام محکموں کو ہدایت کی گئی کہ اس سال کے ترقیاتی کاموں کے لیے ٹینڈر کے پرانے طریقے کو ختم کرکے(E- tenders) کے Zریعے (E- budding )ہوگی اور ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں مختلف ترقیاتی کام کرنے والے محکموں کو صوبائی حکومت کی جانب سے ای بڈنگ اورKPPRA ( خیبر پختونخوا پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی) و PPRA (پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی۔

) کے تمام قوانین لاگو کرنے کے واضح طور پر احکامات جاری کیے ہیں۔ لیکن قبائلی اضلاع میں لوکل گورنمنٹ، ایری گیشن، محکمہ پبلک ہیلتھ، سی اینڈ ڈبلیو اور دیگر ترقیاتی محکموں نے صوبائی حکومت کے احکامات ہوا میں اُڑا دیئے۔
 قبائلی اضلاع کے محکمے نہ صرف پرانے ٹینڈر نظام کے تحت کھلے عام اخباری اشتہار کے ذریعے ٹینڈرز منعقد کرتے ہیں بلکہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی محکموں میں موجود ایک مخصوص لا بی جو کمیشن خور گروپ کے نام سے جانا جاتا ہے کی وجہ سے صوبائی حکومت کے احکامات اور کیپرا و پیپرا کے قوانین کو بلائے طاق رکھ کر گزشتہ ماہ سے شروع ہونے والے مالی سال کے ٹینڈرز کو پرانے طریقے سے کروا کر قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا پر عمل نہ کرنے سے اور سابقہ ٹینڈر نظام کی وجہ سے حال ہی میں قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔

قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کام کرنے والے کارکن اوراصل ٹھیکیداروں نے صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ای بڈنگ نظام کا خیر مقدم کیا ہے تاہم جعلی اور '' رینگر مافیا نام نہاد ٹھیکیدار اپنے کمیشن کی چکر میں اس نئے نظام کو رائج کرنے کے خلاف ہے جو یہ نہیں چاہتے کہ پرانا نظام ختم ہو جائے۔
 راقم کو یہ معلوم ہوا ہے کہ اس وقت فاٹا کے ترقیاتی محکموں کے بعض افسران کی لابی بھی اس نئے نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہیں اور کمیشن خور ٹھیکیداروں کو نئے نظام۔

کے خلاف احتجاج کی راہ اختیار کرنے کا مشورے بھی دے رہی ہے۔ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی محکموں کے بڑے مگرمچھ افسران صوبائی حکومت کے احکامات کو اپنے پیروں تلے روندنے میں مصروف ہے جبکہ دوسری جانب فاٹا کے کمیشن مافیا ٹھیکیدار اس بہترین نظام کو بدنام کرنے اور پرانے نظام کو برقرار رکھنے کے لئے ایڑی چھوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔
 اس حوالے سے علاقائی باخبر حلقوں اور فاٹا میں کام کرنے والے ٹھیکیداروں نے موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے لئے ای بڈنگ نظام اور ای بیلنگ نظام کو بھی متعارف کیا جائے تاکہ قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں میں کرپشن کو روکا جا سکے۔

انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ قبائلی اضلاع کے ترقیاتی محکموں میں عرصہ دراز سے تعینات کمیشن کار اور بھتہ خور افسران کے خلاف بھی صوبائی حکومت کارروائی کرکے اس کا کڑا احتساب کرکے ان کے خلاف نیب سے انکوائری کرائی جائے کیونکہ یہی افسر شاہی قبائلی اضلاع میں نیا نظام لاگو کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ انہون نے مطالبہ کیا کہ پرانے نظام کو تقویت دینے والے اہلکاروں وافسران کو فوری تبدیل کرکے ان کی جگہ نئے نظام اور ای بڈنگ کو مظبوط کرنے والے ایماندارافسران تعینات کئے جائیں۔ تاکہ قبائلی علاقوں سے رشوت کا ناسور ختم ہوکر عوام کوخوشحال اور علاقہ کو صوبے کے ترقیافتہ علاقوں کے برابر لایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :