ایم ایم کو ہم نے بنایا ہے اسے برقرار رکھیں گے، مولانا فضل الرحمن،استعفوں کے ایشو پر جے یو آئی کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور ہمارا میڈیا ٹرائل کیا گیا، ہمارا موقف پہلے بھی واضح تھا اور اب بھی ہم حق پر ہیں، عالمی استعمار اور امریکہ نے اپنی ترجیح کا تعین کرتے ہوئے اپنی پوری سیاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیدیا جبکہ اب اسے اسلامی دہشت گردی کا نام دیاجارہا ہے، پاکستان توڑنا مذہبی جماعتوں کا نہیں امریکہ کا ایجنڈا ہے، امریکہ کو دہشت گردی کا مفروضہ ترک کر کے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی، آئین کو مکمل بحال کرنا ہو گا، متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل اور جے یو آئی کے سربراہ کا تقریب سے خطاب

منگل 23 اکتوبر 2007 19:04

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23اکتوبر۔2007ء) متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے نہ توڑنے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اتحاد ہم نے بنایا ہے اور اسے برقرار رکھیں گے تاہم انہوں نے کہا کہ استعفوں کے ایشو پر میری جماعت کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہمارا میڈیا ٹرائل کیاگیا ہے اس لئے ہمیں وضاحت کرنے اور اپنے ساتھیوں کو سمجھانے کا حق حاصل ہے بڑی قربانیاں دینے کے بعد ہماری پذیرائی کرنے کی بجائے ہماری کردار کشی ہو رہی ہے ہمارا موقف پہلے بھی صاف تھا اور اب بھی ہم حق پر ہیں، مذہبی جماعتوں کو انتہا پسندی طرف دھکیلا جا رہا ہے، استعفے کے مسئلے کا حل نہیں ، پاکستان توڑنا مذہبی جماعتوں کا نہیں امریکہ کا ایجنڈا ہے، امریکہ کو دہشت گردی کا مفروضہ ترک کر کے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی، آئین کو مکمل بحال کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

جے یو آئی کے کارکنان اپنی صفوں میں اتحاد برقرار رکھیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کے روز جمعیت علماء اسلام صوبہ سرحد کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ سرحد اکرم خان درانی اور سابق صوبائی وزراء و ارکان پارلیمنٹ کے اعزاز میں دی گئی عید ملن پارٹی سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پراکرم خان درانی، سینیٹر مولانا گل نصیب خان، مولانا شجاع الملک ،سابق صوبائی وزراء ملک ظفر اعظم، مولانا فضل علی حقانی، حافظ اختر علی، مولانا امان الله حقانی اور قاری محمود نے بھی خطاب کیا۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عالمی سیاست کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں عالمی استعمار اور امریکہ نے اپنی ترجیح کا تعین کرلیا ہے اور اپنی پوری سیاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیدیا ہے جبکہ اب اسے اسلامی دہشت گردی کا نام دیاجارہا ہے۔وہ طاقت کا استعمال کر کے دنیا پر اپنی حاکمیت مسلط کرنا چاہتے ہیں قوم کی آزادی چھین کر ان کی خود مختاری سلب کرکے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں عراق پر قبضہ عرب کے تیل پر اور افغانستان پر قبضہ وسط ایشیا کے معدنی ذخائر کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ اور عالمی قوتیں مفروضے کی بنیاد پر ترجیحات کا تعین کرتی ہیں تو پاکستانی سیاست میں ہماری ترجیح خارجی عوامل پہلے اور داخلی عوام دوسرے درجے میں ہونگے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اور دیگر سیاسی جماعتوں میں فرق ہے ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں آمریت مسلط ہے ڈکٹیٹر شپ قائم ہے ،آئین مکمل طورپر بحال نہیں، پارلیمنٹ کو بالا دستی حاصل نہیں اور ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سیاست سے فوج کو بے دخل کریں ہم نے مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے پوری تیاری کے ساتھ اپنی حکمت عملی کا تعین کرلیا ہے۔

ہمارا موقف واضح رہے گا اور ہمارے رویوں میں اعتدال ہو گا۔عوامی اور سیاسی محاذپر دلیل کی بنیادپر ہمیں عالمی استعمار کے موقف کو رد کرنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ مذہبی طبقے اور دینی قوتوں کے بارے میں انتہا پسندی ،شدست پسندی اور خون ریزی کا تاثر عام ہے جسے ہم نے مٹانا ہے اسلام کے پر امن تصور کو بے نظیر، نواز شریف یا اسفند یار ولی اجاگر نہیں کرینگے بلکہ یہ ذمہ داری ہماری ہے اس لئے ہم اسلام کی اعتدال پسندی اور امت مسلمہ کی میانہ روی سامنے لانے کے لئے اپنی سیاست کو تین حصوں عالمی سیاست،ملکی سیاست اور صوبائی سیاست میں تقسیم کر دیا ۔

اس سلسلے میں ہم نے پہلے بیرون ممالک کے سفیروں کو اسلام آباد میں بلایااور ان کے سامنے اپنا موقف پیش کیا انہوں نے کہا کہ میں نے امریکی سفیر پر اپنی ملاقات میں واضح کیا کہ اگر آپ امن کے خواہاں ہیں تو امریکہ کی ایماء پر 9 سال سے قبائلی علاقوں میں میرے داخلے پر پابندی کیوں ہے۔قبائل ہمارے زیر اثر ہیں اور ہم وہاں سے الیکشن جیتے ہیں اگر ہم ان کے ساتھ رابطہ نہ رکھیں تو انہیں کون اعتدال پر قائم رکھنے کی ترغیب دیگا۔

اسی طرح امریکی لابی کے اسلامی ممالک میں ہمارا داخلہ کیوں بند ہے اور دبئی میں میرے جانے پر پابندی کیوں عائد کی جاتی ہے ۔اسی طرح یورپ میں کوئی ہمارے ساتھ بات کرنے کو تیار نہیں اور امریکہ ویزا ہم پر کیوں بند ہے۔امریکی سفیر کو یہ بھی بتایا کہ وزیرستان میں امن معاہدے ہماری کوششوں سے ہوئے حکمرانوں نے امریکہ کی ایماء پر اسے سبوتاژ کیا اور قبائل کی آگ کو بھڑکانے کے لئے لال مسجد اور جامعہ حفصہ کو کیوں ایندھن بنایا گیا۔

مذہبی طبقہ کے امریکہ مخالف نوجوانوں کو اپنی ہی جماعت کے خلاف کیوں مشتعل کیاجارہا ہے یہ صرف اس لئے کہ اعتدال کی بات کرنے والی جماعت کو متنازعہ بنایاجائے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری ادارے اتنے بے حس ہیں کہ وہ لال مسجد کی سرگرمیوں سے بے خبر تھے یہ محض مذہبی طبقے کو اشتعال دلانے کی ایک سازش تھی اور یہی وجہ تھی کہ جس دن لال مسجد کے خلاف آپریشن کیاگیا تو قبائل میں لوگوں نے معاہدے توڑنے کا اعلان کیا۔

انہوں نے کہا کہ اب ملکوں کو داخلی خلفشار کی بنیاد پر تباہ کیاجارہا ہے امریکہ عرب دنیا اور ایشیاء کو تقسیم کرنا چاہتا ہے عراق کو عرب کرد اور شیعہ سنی کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اب کردوں کی بغاوت کی بنیاد پر ترکی ،عراق اور ایران کو توڑا جائیگا۔انہوں نے کہا کہ یہی قوتیں اب پاکستان کو توڑنا چاہتی ہیں جو ہمارا ایجنڈا قطعاً نہیں اسی لئے ہم اپنے نوجوان کو بتانا چاہتے ہیں کہ امریکہ کا ایجنڈا اور ان کی سازش کو سمجھیں ۔

انہوں نے کہا کہ دینی قوتیں اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں امریکہ اور پاکستان کے حکمران سمجھیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ مفروضہ ثابت ہوا ہے اس لئے عالمی پالیسیوں پر نظر ثانی کئے بغیر دنیا کو امن کی طرف نہیں لے جایا جا سکتا ۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سیاستدان اقتدار تک پہنچنے کے لئے امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جنرل مشرف اقتدار میں رہنے کے لئے جنگ کو بھڑکا رہا ہے اور بے نظیر بھٹو مشرف سے بھی آگے بڑھنا چاہتی ہے انہوں نے کہا کہ عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے ہم نے انڈیا کا سفر کیا اور 10 دن کے اندر انڈیا کی سوچ تبدیل کر دی اسی طرح برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات اور بعدازاں دورہ برطانیہ کے دوران ہم نے برطانوی حکمرانوں کو اپنا موقف سمجھایا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان توڑنا مذہبی جماعتوں کا نہیں امریکہ کا ایجنڈا ہے۔ امریکہ کو دہشت گردی کا مفروضہ ترک کر کے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔مولانا فضل الرحمن نے مطالبہ کیا کہ آئین کو مکمل طور پر بحال کیا جائے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل نے صحیح پالیسی اپنائی اور اپنے کارڈ اچھے انداز میں کھیل رہے تھے ۔ہماری کوشش تھی کہ مولوی کے اقتدار میں نہ آ سکنے اور حکومتی امور سے نا واقفیت کے تاثر کو ختم کریں لیکن اس دوران استعفوں کی سیاست کو اچھالا گیا اور پورے ملک میں ایسی فضا بنائی گئی کہ جو استعفیٰ دے گا وہ مشرف کا مخالف اور جو نہ دے گا وہ مشرف کا حامی ہو گا۔

اکبر بگٹی مرحوم کے قتل پر استعفیٰ سے روکنے کے لئے میں نے 6 گھنٹے بحث کی جبکہ خواتین بل کے بعد چار گھنٹے تک بحث کر کے اپنے ساتھیوں کو قائل کیا۔اس دوران سراج الحق نے وزارت سے استعفیٰ اس بناء پر دیا کہ وہ جماعت کی امارت پر توجہ دینا چاہتے ہیں لیکن ہم نے پندرہ روز انہیں قائل کرنے کی کوشش کی اور انہوں نے اپنے استعفیٰ کو سانحہ باجوڑ سے جوڑ دیا قاضی حسین احمد نے ہمیں بتائے بغیر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا۔

انہوں نے کہا کہ اے پی ڈی ایم کے قائدین نے یہ تسلیم کیاتھا کہ ان کے استعفوں کا فیصلہ غلط ہے اورہم نے فیصلہ تبدیل کرنے پر زور دیا لیکن ساتھیوں کو سبکی سے بچانے کے لئے ہم نے استعفوں کا فیصلہ قبول کیا۔انہوں نے کہا کہ ہم کسی کی بے عزتی نہیں کرنا چاہتے لیکن استعفوں کے مسئلے پر ہماری بے عزتی کی گئی ہم پر الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں اور ہمارا امیج خراب کیاگیا ۔

اس لئے ہم یہ حق رکھتے ہیں کہ اپنا موقف پیش کریں اور اپنی پوزیشن کی وضاحت کریں۔صوبہ سرحد میں وزارت اعلیٰ کا منصب،بلوچستان میں حکومت اور قومی اسمبلی میں اپنی بڑی طاقت کی قربانی دینے کے بعد ہماری پذیرائی کی بجائے ہماری کردار کشی کی جا رہی ہے ۔الزامات تو ہم بھی لگا سکتے ہیں کہ انفرادی استعفوں سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرنے اور جسٹس وجیہہ الدین کی حمایت کرنے میں ہمیں اعتماد میں نہیں لیاگیا لیکن ہم ایسا نہیں کرنا چاہتے انہوں نے کارکنوں پر زور دیا کہ وہ مقامی اختلافات کو بالائی سطح تک نہ بڑھائیں اور جماعتی اختلافات کو ذاتی انا کا مسئلہ نہ بنائیں ایسے کارکن جماعت کی روح نہیں ہوتے ۔

اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ اکرم خان درانی نے کہا کہ وہ خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں اور وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سابق وزیر اعلیٰ سے مناظرے کے لیے بھی تیار ہیں۔