پاک افغان وزیر خارجہ ملاقات ، سلامتی اور اقتصادی تعاون کے لئے خصوصی ماہرین کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ ، پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے اور انسداد دہشت گردی کے لئے کوششیں تیز کرنے پر اتفاق،پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں ، ان کیخلاف اپنی سرزمین کو استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ، افغانستان میں کوئی بھارتی فوجی موجود نہیں، افغان وزیر خارجہ ،پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے ، مذاکرات صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے ہوں گے ، دہشت گردی کیخلاف جنگ دونوں ممالک کی سلامتی کے لئے اہم ہے،شاہ محمود قریشی کا افغان ہم منصب کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس \\

بدھ 22 اکتوبر 2008 14:20

پاک افغان وزیر خارجہ ملاقات ، سلامتی اور اقتصادی تعاون کے لئے خصوصی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔22اکتوبر۔2008ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پاک افغان تعلقات خطے میں امن وسلامتی کے لئے انتہائی اہم ہیں‘ افغان ہم منصب سے ملاقات انتہائی کامیاب رہی‘ دونوں جانب سے اقتصادی‘ تجارتی‘ سیاسی روابط اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یکساں مؤقف اپنانے پر اتفاق پایا گیا‘ دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کے لئے سیاسی و عسکری حکمت عملی جاری رہے گی‘ صرف ہتھیار ڈالنے والوں سے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا جائے گا‘ پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرینگے‘ اس سلسلے میں عالمی برادری کو اعتماد میں لیا ہے‘ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون کو مزید مستحکم کرنے‘ سیکورٹی و اقتصادی امور کے حوالے سے خصوصی ماہرین کمیشن کے قیام‘ طویل المیعاد تعلقات کے لئے فریم ورک بنانے‘ بین السرحدی اقتصادی زونز کے قیام‘ بین السرحدی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک افغان سرحد پر بائیومیٹرک نظام نصب کرنے پر مکمل اتفاق ہو گیا‘ مشترکہ اقتصادی کمیشن کا ترقیاتی منصوبوں بارے اہم اجلاس نومبر کے آخری ہفتے کابل میں‘ تیسری علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس (ریکا) 18,19 جنوری 2009ء اسلام آباد میں منعقد ہو گی۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک کے مابین عوامی سطح پر روابط کو فروغ دینے کے سلسلے میں پاکستانی پارلیمانی وفد جلد کابل کا دورہ کریگا جبکہ افغانستان کی جانب سے بھارتی فوج کی افغان سرزمین پر آمد کو مکمل طور پر رد کر دیا گیا ہے۔ افغانستان میں 16 نہیں 4 بھارتی قونصلیٹ موجود ہیں۔ امریکا ایران کشیدگی اور پاک بھارت مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔ تمام ممالک سے یکساں تعلقات کے خواہاں ہیں‘ افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیگا۔

پاکستان کی سالمیت اور استحکام کا مکمل احترام کرتے ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ممالک کی پالیسی یکساں ہے‘ پوست کی کاشت کے خاتمے سے دہشت گردوں کے مکمل خاتمے میں بھرپور مدد ملے گی۔ ان خیالات کا اظہار پاک افغان وزرائے خارجہ نے بدھ کے روز دفتر خارجہ میں مشترکہ پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات میں پاک افغان تعلقات عالمی و علاقائی امور ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ پاک افغان اقتصادی و تجارتی تعاون کے فروغ‘ پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ دونوں ممالک کی سلامتی اور اقتصادی تعاون کے حوالے سے خصوصی ماہرین کمیشن جلد قائم کیا جائے گا‘ متعدد معاہدوں پر دستخطوں سے باہمی تعلقات میں اضافہ ہو گا اور مستقبل کے لئے حکمت عملی وضع کرنے میں مدد ملے گی‘ انہوں نے کہا کہ طویل المیعاد تعلقات کا فریم ورک بنانے پر اتفاق ہوا ہے جس میں ٹرانسپورٹ و مواصلات راہداری‘ توانائی و قدرتی وسائل کی ترقی‘ بین السرحدی اقتصادی زونز کے قیام‘ چین کے تعاون سے ریل رابطوں کے فروغ اور دونوں ممالک کو ملانے کے حوالے سے اہم اقدامات شامل ہیں۔

لویہ جرگہ اور جرگہ گئے دونوں ممالک میں قیام امن اور استحکام کے حوالے سے اہم کردار ادا کرینگے۔ رواں ماہ 27 اکتوبر سے اسلام آباد میں منعقد ہونے والے جرگے کا حتمی ایجنڈا طے کر لیا گیا ہے جبکہ جمہوری حکومت افغانستان کے ساتھ ہر شعبے میں تعاون کو آگے بڑھانے کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہی ہے۔ وزیر خارجہ نے بتایا کہ مشترکہ اقتصادی کمیشن کے قیام سے دونوں ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی جس کا اہم اجلاس نومبر کے آخری ہفتے کابل میں ہو گا۔

تیسری علاقائی اقتصادی تعاون کانفرنس 18,19 جنوری 2009ء کو اسلام آباد میں منعقد ہو گی جبکہ پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردی و انتہاپسند کارروائیوں کے خاتمے کے لئے بائیومیٹرک نظام تین مختلف پوائنٹس پر نصب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ دونوں ممالک کی سلامتی اور استحکام کے لئے اہم ہے۔ حکومت اور پاک افواج غیرمتزلزل حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرنے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔

ہتھیار نہ پھینکنے والوں کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قیام امن کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی حکمت عملی کو آگے بڑھایا جائے۔ سعودی حکام اور چند افغان گروپس کے مابین غیررسمی بات چیت ہوئی ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف پاک افغان پالیسی یکساں ہے جبکہ اسلام آباد میں ہونے والے افسوسناک واقعات کے بعد حکومت نے جمہوری طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کا بند کمرہ اجلاس بلایا جس میں قومی سلامتی اور امن وامان کے حوالے سے حتمی پالیسی کی تشکیل میں مدد ملے گی جبکہ پاکستانی سرحدی حدود کی خلاف ورزی قطعاً برداشت نہیں کی جائے گی دہشت گردوں کی بے عقلی یا ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لئے پاک افواج موثر کارروائی کر رہی ہیں۔

سرحد کے دوسری جانب یہ افغان و اتحادی افواج کی ذمہ داری ہے جبکہ دونوں ممالک کے مابین عوامی سطح پر روابط کو استوار کرنے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی پر مشتمل پارلیمانی وفد جلد کابل کا دورہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری کے حالیہ دورئہ امریکہ میں واضح کیا گیا تھا کہ ڈرون حملوں سے قبائلی عوام کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتاہے اور ایسی اشتعال انگیز کارروائیوں سے انسداد دہشت گردی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لئے قبائلی عوام کے دل جیتنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں سفارتی فورم پر آواز اٹھائی ہے یہی وجہ ہے کہ نیٹو فورسز نے بھی ان امریکی حملوں کی پرزور مخالفت کی۔ اس موقع پر افغان وزیر خارجہ رنگین داد فر سپانتا نے کہا کہ وزیر خارجہ سے یہ ان کی چھ ماہ میں چھٹی اہم ملاقات ہے اس قسم کی ملاقاتوں سے دونوں ممالک کے درمیان متعدد امور پر مؤقف جاننے میں مدد ملے گی۔

پاکستان اور افغانستان کو درپیش تمام چیلنجز میں دہشت گردی سرفہرست ہے۔ تمام باہمی اور سہ فریقی اقدامات اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان سے تمام شعبوں میں تعاون کے خواہاں ہیں۔ علاقائی امن و سلامتی کے لئے سیاسی و فوجی حکمت عملی درست ہے اور جرگوں کا سلسلہ امید کی کرن ہے جس سے بیشتر مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ ہم صرف ایسے عناصر سے مذاکرات کے حامی ہیں جو مکمل طور پر افغان آئین کا احترام کریں اور ہتھیار ڈال دیں۔

انسداد دہشت گردی کا اولین مقصد افغانستان کو مضبوط بنانا تعمیرنو کے کام کو آگے بڑھانا اور دفاع کو مضبوط کرنا ہے۔ اس مقصد کے لئے عالمی برادری افغانستان کو آئندہ پانچ سالوں کے دوران 51 ملین ڈالر فراہم کرے گی جبکہ پاکستان بردار ملک ہے کسی کو بھی پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی یا اندرونی معاملات میں افغانستان سے مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نہ تو بھارت ایک لاکھ 50 ہزار فوج افغانستان بھیج رہا ہے نہ ہی افغانستان میں سولہ قونصلیٹ جنرل قائم ہیں حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں مزار شریف ‘ عراق‘ قندھار اور جلال آباد میں چار بھارتی قونصلیٹ موجود ہیں۔ افغانستان میں کوئی بھارتی فوجی موجود نہیں۔ صرف سڑکوں اور ڈیموں کی تعمیر کے لئے سویلین انجینئرز موجود ہیں جبکہ ہم ایران امریکہ کشیدگی اور پاک بھارت تعلقات کو سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ افغانستان کے کچھ علاقوں میں سکیورٹی مسائل موجود ہیں جس کے باعث منتخب افغان حکومت نے اتحادی افواج کو مزید چند سالوں کے لئے افغانستان میں رہنے کی باضابطہ درخواست دی جس سے قیام امن کی کوششوں میں مدد ملے گی انہوں نے مزید کہا کہ سرحدی علاقوں پر دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تمام تربیتی کیمپوں کو تباہ کرنا ہو گا جو نفرت اور دشمنی کی اصل جڑ ہیں۔ ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں جبکہ سماجی، اقتصادی اور معاشی مسائل کے باعث ایک تباہ حال ملک کے لئے تمام افغان شہریوں کی جلد از جلد وطن واپسی اور دوبارہ نئی زندگی شروع کرنا مشکل کام ہے اس کے لئے ہمیں پاکستان کی مدد چاہئے۔۔