سپریم کورٹ نے شریف برادران کو نااہل قرار دے دیا،شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب نہیں رہے،زرداری نے اہلیت کے مقدمے پر شہباز شریف کو بزنس ڈیل کی آفر کی،نواز شریف،معزول ججز کی بحالی میں این آر او رکاوٹ ہے جس کے ذریعہ آصف علی زرداری نے رعائتیں حاصل کیں،ن لیگ کے قائدکی پریس کانفرنس

بدھ 25 فروری 2009 19:28

لاہور/اسلام آبادلاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25فروری۔2009ء) سپریم کورٹ نے شریف برادران اہلیت کیس کے حوالے سے دائر درخواستیں مسترد کرتے ہوئے انہیں نااہل قرار دیدیا ہے ۔ جس کے بعد میاں شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلٰی نہیں رہے ۔ شریف برادران کی اہلیت سے متعلق سپریم کورٹ کے تین صفحات پر مشتمل فیصلے میں مدعیان شکیل بیگ اور مہر ظفر اقبال کی درخواستیں ایک لاکھ ہرجانے کے ساتھ مسترد کی گئی ہیں۔

فیصلے کے مطابق اہلیت کیس کے مدعیان کو ہرجانے کی عدم ادائیگی پر تین ماہ قید کاٹنا ہوگی۔ اہلیت کیس کی سماعت جسٹس موسٰی کے لغاری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ بینچ کے دیگر دو ارکان جسٹس سخی حسین بخاری اور جسٹس شیخ حاکم علی تھے ۔ درخواستوں پر سماعت آٹھ ماہ جاری رہی۔

(جاری ہے)

لاہور ہائی کورٹ نے گذشتہ سال جون میں نوازشریف کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا تھا ۔

سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی انتخابی کامیابی کانوٹیفکیشن کالعدم قراردیتے ہوئے ان کی پنجاب اسمبلی کی رکنیت منسوخ کردی،اس فیصلے کے ساتھ ہی شہبازشریف وزیر اعلیٰ پنجا ب نہیں رہے ۔ سپریم کورٹ میں تین رکنی بنچ نے جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں شریف برادران کی انتخابی اہلیت کے حوالے سے بدھ کے روزمقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ شریف برادران اہلیت کیس میں چیف سیکرٹری اور اسپیکر پنجاب متاثرہ فریق نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ججز نے آئین کے تحت حلف اٹھارکا ہے ،عبوری آئین کا حلف غیرمتعلقہ بات ہے۔انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے تجویز تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے جب عدالت انہیں اجازت دے۔تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں۔انہوں نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالتی بینچ کی وسعت برداری کا فیصلہ جج کی صوابدید پرہوتاہے اسے کوئی دست بردار ہونے کی ہدایت نہیں کرسکتا۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے تجویز و تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے جب عدالت انہیں اجازت دے۔تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں۔دلائل مکمل ہونے کے بعد کچھ دیر کا وقفہ دیا اور بعد میں شریف برادران اہلیت کیس نمٹاتے ہوئے تین رکنی بنچ نے نوازشریف کو نااہل قراردیا۔کیس کی سماعت کے دوران جسٹس موسیٰ خیل اور ایڈووکیٹ اکر م شیخ کے درمیان تلخ جملو ں کاتبادلہ بھی ہوا جبکہ اس موقع پر سپریم کورٹ کے باہر سخت سیکورٹی تعینا ت کی گئی تھی ۔

بعد ازاں سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ شریف برادران اہلیت کیس کے فیصلے میں وفاق نے دہرا معیار اپنایا ہے ۔انہوں نے کہا کہ فاضل ججزنے اپنی اہلیت کا فیصلہ کیے بغیر اس مقدمے کی سماعت کی ۔انہوں نے کہا کہ اہلیت کیس کا فیصلہ صدر آصف علی زرداری کی خواہش کے مطابق ہوا ہے اوراس کیس میں وفاق نے دہرا معیاراپنایا ہے ۔

اکرم شیخ نے کہا کہ فاضل جج صاحبان کو ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے تھا کہ جس سے ملک میں کوئی ہیجان پید ا ہو۔ مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف اورشہباز شریف نے عدالت میں نہ آکردوراندیشی کا مظاہرہ کیا۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے صدر آصف علی زرداری کے ہدایت پر صوبے کے انتظامی امور سنبھال لئے ہیں ۔ ادھرمسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ معزول ججز کی بحالی میں این آر او رکاوٹ ہے جس کے ذریعہ آصف علی زرداری نے رعائتیں حاصل کیں، قوم اب بھی تبدیلی کے لئے باہر نا آئی تو یہ بہت بڑا سانحہ ہو گا ، ان کی اہلیت کا فیصلہ اب سپریم کورٹ سے نکل کر عوام کی عدالت میں آچکا ہے ،اورعوام سپریم کورٹ کا فیصلہ رد کرنے کا حق رکھتے ہیں وقت آنے پر یہ فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، رائے ونڈ میں پریس کانفرنس سے خطاب میں نواز شریف کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے لئے پنجاب کی حکومت سو بار قربان کرنے کو تیار ہیں۔

دکھ اس بات کا ہے کہ ملک کی بہتری کے لئے کیا خواب دیکھے تھے اورکہاں پہنچ گئے ،پاکستان کو برباد کرنے والے عناصر کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو نہیں مانتے ۔فیصلہ دینے والے ڈکٹیٹر کو سلام کرنے والے جج ہیں ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ نوازمرکزی حکومت سے سال بھر تعاون کرتی رہی اور اب بھی پوری کوشش ہے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہ چلے جائیں، نواز شریف نے کہا کہ زرداری صاحب زبانی اور تحریری وعدوں سے مکر گئے ۔

مسلم لیگ نواز کے سربراہ نے نے دعویٰ کیا کہ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ججوں کیلئے جدوجہد ترک کردیں توفیصلہ ان کے حق میں فیصلہ کردیا جائے گا،زرداری صاحب نے بھی شہباز شریف سے کہا کہ آئیں بزنس ڈیل کریں، وہ ججوں کے معاملے پر سودے بازی کرنا چاہتے تھے ، انہوں نے کہا کہ نواز لیگ نے تعاون کیلئے جو بنیاد رکھی تھی زرداری صاحب نے اس کا حشر کردیا، نواز شریف کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے پاس بی اے کی ڈگری نہیں تھی اس لیے صدر کی اہلیت کے لئے بی اے کی شرط ایک دن میں ختم کردی گئی،انہی ججز نے پرویز مشرف کے کیس کا فیصلہ ایک دن میں کردیا۔

جبکہ سب جانتے ہیں کہ پرویز مشرف آئین کے مطابق اہل نہیں تھے ، نواز شریف نے کہا کہ وہ عہدے کی لالچ کے بغیر پاکستان کی خدمت میں پیش پیش رہیں گے ، پاکستان سے زیادہ اہلیت اور عہدے عزیز ہوتے تو ڈیل کرلیتے ، لیکن انہوں نے نااہل ہونا قبول کرلیا مگر پاکستان پر سودے بازی نہیں کی، ، نواز شریف نے کہا کہ مشرف قوم کو جواب دیں کس آئین کے تحت سوئٹزر لینڈ کے مقدمات ختم کئے گئے ۔

لندن معاہدے کی رو سے چوبیس گھنٹے میں ججز کو بحال کرنا تھا، لیکن صدر نے جج بحال کرنے کے بجائے مشرف کے کاموں پر مہرتصدیق لگانے کیلئے کہا، سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیک نیتی سے ہاتھ ملا تھا لیکن ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا گیا،قوم صدر زرداری کے اس اقدام پر اٹھ کھڑی ہو، اس وقت نظام کی تبدیلی کیلئے باہر نہ آنا بڑا سانحہ ہوگا، قوم ساتھ دے تو انشا اللہ پاکستان میں جمہوری انقلاب لائیں گے ،