اٹھارہ ہزاری ‘ ضلعی انتظامیہ کی مبینہ غفلت سے سینکڑوں متاثرین سیلاب مالی امدادسے محروم‘احتجاج پر مجبور ہو گئے

جمعہ 21 نومبر 2014 20:46

اٹھارہ ہزاری ‘ ضلعی انتظامیہ کی مبینہ غفلت سے سینکڑوں متاثرین سیلاب ..

اٹھارہ ہزاری ( اُردو پوائنٹ تاز ترین اخبار۔ 21نومبر 2014ء ) ضلعی انتظامیہ کی مبینہ غفلت اور لاپرواہی کے باعث سینکڑوں متاثرین سیلاب مالی امدادسے محروم ہونے کی وجہ سے احتجاج پر مجبور ہیں۔انتظامیہ احتجاج کر نے والے افراد کو درخواستیں دینے کا کہہ کر فرائض سے سبکدوش ہو جاتی ہے ضلع بھر میں 7284درخواستوں میں سے انتظامیہ نے سکروٹنی کے دوران 99.2%درخواستیں بوگس قرار دے دی ہیں جبکہ صرف 5افراد کو سیلاب متاثرین کے لئے ملنے والی امدادی رقم کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔

ایک طرف حکومتی امداد کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنانے اور پورے عمل کی مانیٹرنگ کرنے والے وزراء اور مختلف محکموں کے سیکریٹریز ضلعی انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت سے وزیر اعلی میاں شہباز شریف کہ"سب اچھا ہے " کی رپورٹ پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب آئے روز احتجاج کر کر کے تنگ آنے والے متاثرین سیلاب اپنا حق لینے کے لئے ضلعی انتظامیہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عدلیہ کے دروازے پر دستک دینی شروع کر دی ہے۔

(جاری ہے)

نواحی موضع کھرل تحصیل 18ہزاری کے رہائشی قاضی امتیاز حسین نامی ایک شخص نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جھنگ کی عدالت میں رٹ پیٹیشن دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ وہ حالیہ سیلاب میں حقیقی طور پر متاثر ہوا لیکن درخواستیں دینے کے باوجود اسے ابھی تک مالی امداد نہیں دی گئی جبکہ اے سی 18ہزاری ، تحصیلدار18ہزاری اور پٹواریوں نے سیاسی پشت پناہی،ملی بھگت،بد عنوانی اور بد اعمالی سے غریبوں کا حق چھین کر غیر مستحق افراد میں مالی امداد بلکہ راشن ،ادویات،خیمہ جات اور چارہ /ونڈہ برائے مویشاں تقسیم کئے۔

مذکورہ سائل نے اپنی رٹ پیٹیشن کے ساتھ 22افراد کی ایک فہرست بھی لف کی ہے جنہیں قوائد و ضوابط سے ہٹ کراور غیر متاثرہ ہونے کے باوجود لاکھوں روپے کی رقم دی گئی۔ ان افراد میں سروے ٹیم کا ممبر ماسٹر محمد ریاض ولد اللہ بخش اور اسکا بیٹا قیصر عباس ساکنان موضع کھرل، تین سگے بھائی محمد ظفر، نذر حسین ، حاجی احمد پسران محمد بخش ساکنان موضع کھرل جنکی کماد کی فصل ابھی بھی کھڑی ہے ،دو سگے بھائی محمد حیات۔

عمر حیات پسران محمد بخش ،تحصیل 18ہزاری کا ملازم محمد ارشد ولد منور وغیرہ شامل ہیں ۔رٹ پیٹیشن میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ نے جن تین پٹواریان احمد شیر دھپڑا،غلام شبیر اور عابد علی خان سے سروے کروایا وہ معذور کوٹہ میں پٹواری بھرتی ہوئے تھے اور اس قابل ہی نہ تھے کہ انہیں فیلڈ ورک دیا جاتا چنانچہ وہ مقامی ایم پی اے کے ڈیرہ پر بیٹھ کر سرکاری امداد کی بندر بانٹ کے لئے فہرستیں مرتب کرتے رہے۔

عدالت نے مذکورہ رٹ پیٹیشن کی آئندہ تاریخ پیشی 26نومبر مقرر کر کے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں ۔ علاوہ ازیں ضلع بھر میں ہزاروں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو حقیقی طور پر متاثرین سیلاب ہیں لیکن ابھی تے انہیں ایک روپے کی مال امداد نہیں ملی۔ دوسری جانب ایک سروے کے مطابق ہزاروں ایسے افراد ہیں جو ضلعی انتظامیہ کی مبینہ غفلت ،لاپرواہی، عدم توجہی اور اقرباء پروری کے باعث غیر متاثرہ ہونے کے باوجود کروڑوں روپے کی مالی امدادلے گئے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ڈی سی او کے حکم پر تھانہ مسن میں دو خواتین سمیت 32افراد کے خلاف جعلسازی اور دھوکہ دہی سرکار کی آنکھوں میں مٹی جھونک کر متاثرین سیلاب کے لئے آنے والی رقم وصول کرنے کے الزام میں مقدمہ نمبر 222زیر دفعہ 420ت پ درج کیا گیا ہے ۔

اب تک ضلعی انتظامیہ نے 60ہزار افراد میں متاثرین سیلاب کے لئے آنے والی 2ارب 60کروڑ 20لاکھ 70ہزار روپے کی رقم تقسیم کی ہے لیکن حالات و اقعات سے یہ بات واضح ہے کہ اس رقم کا ایک بڑا حصہ ان افراد میں تقسیم ہوا ہے جو حقیقی طور پر سیلاب سے متاثرہ ہی نہیں ہیں ۔ حقیقی متاثررین کی ایک بڑی تعداد اب بھی احتجاج کرنے ،عدالتوں کا رخ کرنے اور ضلعی انتظامیہ کو درخواستیں دینے پر مجبور ہے لیکن ضلعی انتظامیہ اپنے سروے میں انہیں غیر مستحق اور بوگس قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

متعلقہ عنوان :