کوئٹہ، اپوزیشن سے ترقیاتی سکیموں کے دورے کر کے نقائص کی نشاندہی کرنے کا کہا ہے، عبدالرحیم زیارت وال

جمعہ 22 مئی 2015 18:20

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22مئی۔2015ء ) بلوچستان گورننس سپورٹ پروجیکٹ کے زیر اہتمام پری بجٹ سمینار مقامی ہوٹل میں منعقد کیا گیا۔ جس میں صوبائی وزیر رحیم زیارت وال ،ارکان صوبائی اسمبلی ، لیاقت آغا، حسن بانو رخشانی، ثمینہ خان، میئر کوئٹہ ڈاکٹر کلیم اﷲ ، سیکرٹری ایریگیشن اور سول سوسائٹی کے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی سمینار سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارت وال نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن ارکان سے کہاہے کہ وہ صوبے بھر میں جاری ترقیاتی کاموں اور سکمیات کا دورہ کریں اور کہی بھی انہیں ناقص کام نظر آئے تو اسکی نشاندہی کریں حکومت اس پر ایکشن لے گی۔

اپوزیشن ارکان کو ان دوروں کے لئے ٹی اے ڈی اے بھی دیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ موجود بجٹ 20ارب آن گوئنگ سکمیات کے لئے مختص کئے جبکہ 15ارب روپے نئی سکیمات کیلئے مختص ہے گزشتہ حکومت میں جو نالیوں کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

وہ دراصل سیلابی نالے ہیں۔ جوکہ شہر کا گندا پانی تلف کرنے بجائے اگر سیلا ب آتا ہے تو اس پانی کو تلف کرنے کے لئے بنائے گئے اس منصوبے میں ناقص انجینئرنگ کی گئی جس کی وجہ سے عوام کے پیسے کا ضیاع ہوا اس سلسلے میں تحقیقا ت کے لئے کمیٹی بنا دی گئی ہے اور ذمہ داران کے خلاف ایکشن ہوگا۔

سمینار سے خطاب کرتے ہوئے سابق سیکرٹری فنانس محفوظ علی خان نے کہا کہ رکرنٹ بجٹ 76فیصد ہوتا ہے جبکہ ہر سال بجٹ انکریمنٹل ہوتا ہے جوکہ پچھلے بجٹ میں اضافہ کرکے پیش کردیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس سال بجٹ کی یہ ترجیحات ہونگے۔ اسمبلی میں موجو عوامی نمائندوں کو چاہئے کہ وہ ٹیکس دینے والی عوام کی رائے اور ترجیحات کو آواز دیں۔ تاکہ عوام کی خواہشات و ترجیحات کے حساب سے بجٹ بنے 2009میں بلوچستان کا بجٹ 35ارب روپے تھا جوکہ اس وقت 217ارب روپے ہیں۔

پھر بھی صوبے میں ترقی نہیں ہورہی کیا عوام کا یہ حق نہیں کہ وہ پوچھے کہ بہتری کیو ں نہیں آرہی اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ پانی کا مسئلہ شدت اختیار کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آئندہ چند سالوں میں لوگ یہاں سے ہجر کرنے پر مجبو رہوجائینگے ۔ صوبے کے کاشتکاروں کو بجلی پانی اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے شدید نقصان اٹھانا پڑ رہاہے۔

کوئٹہ میں ایک بھی کولڈ سٹوریج موجود نہ ہونے کے باعث کاشتکا راپنا پھل سستے اور جلدی بیجنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے پی ایس ڈی پی میں سے صرف 65ارب روپے بلوچستان پر خرچ کئے جاتے ہیں انہوں نے کہاکہ صوبے کاپی ایس ڈی پی نہ تو ساحل ، نہ ہی وسائل پر لگایا گیا جس کی وجہ سے صوبے میں ترقی اور ریونیو ں کا فقدان ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کے 86فیصد حصہ تنخواہوں کی مد میں چلا جاتا ہے ۔

جس کے بعدترقیاتی کاموں کیلئے انتہائی کم رقم بچ جاتی ہے صوبے میں واحد نوکریاں سرکار دے رہی ہے جبکہ یہاں پرائیویٹ سیکرٹر نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب این ایف سی ایوارڈ بنا تھا بلوچستان کو بقایا جات کی مد میں 140ارب روپے دلوائے پنظیر فلائی آور جوکہ 22کروڈ سے شروع ہوا تھا جب تین سال بعد مکمل ہوا تو اس پروجیکٹ کی مد 56کروڑ تک پہنچ گئی تھی اس وقت بھی صوبے میں ایسے پروجیکٹ ہے جن لاگت پانچ ہزار فیصد بڑھ گئی ہے روڈ سیکٹر پروجیکٹ لون پاکستان کا سب سے مہنگا قرضہ ثابت ہوا کیونکہ اس میں بہت سی چیزوں کو مد نظر رکھا ہی نہیں گیا ۔

انہوں نے کہاکہ حکومت کو ڈیٹ منجمنٹ سسٹم بنانا ہوگا۔ تاکہ مزید نقصان سے پچا جا سکے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے پی اینڈ ڈی کے مجیب الرحمان نے کہا کہ صوبائی حکومت نے دو بلوچستان انویسٹرز کانفرنس کروائی جس میں چالیس کے قریب کمپنیاں شریک تھی اور ان میں سے چارکمپنیاں بلوچستان میں کام کرنے آئی مگر پروجیکٹ نہ ہونے کے باعث انہوں نے سرمایہ کاری نہیں کی اس وقت بھی صوبے میں ایک بین القوامی کمپنی معدنیات کے لئے کام کر رہی ہے اور آنے والے برسوں میں سرمایہ کاری کوپچاس ارب روپے تک لے کر جانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے ۔ سمینار کے آخر میں شرکاء سے بھی تجاویز لی گئیں ۔