حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے خواتین کے وراثتی حقوق کو تحفظ دیا اور زبر دستی کی شادی کوجرم قراردیا،فوزیہ وقار

پیر 24 اگست 2015 22:17

سرگودھا (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 24 اگست۔2015ء ) چیئر پرسن پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین فوزیہ وقار نے کہا ہے حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ایسا ادارہ قائم کر دیا ہے جو خواتین کے وراثتی حقوق کے تحفظ کے علاوہ پنجاب مسلم عالمی قوانین میں خواتین کے تحفظ کے علاوہ پیدائش و اموات میں رجسٹریشن فیس کو ختم کر دیا ہے اور اس قانون کے تحت کم عمری اور زبر دستی کی شادی قابل سزا جرم قرار دے دیا گیا ہے۔

وہ آج ڈی سی او سرگودھا کمیٹی روم میں این جی اوز اور متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران پر مشتمل ایک اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں ۔ اجلاس میں ڈی سی او سرگودہا ثاقب منان کے علاوہ ممبر پنجاب کمیشن برائے حقوق خواتین قیصرہ اسماعیل کے علاوہ کمیشن کے دیگر افسران ، ای ڈی او سی ڈی ناصر محمود چیمہ ، ای ڈی او فنانس عرفان احمد سندھو ، ڈائریکٹر کالجز مہر محمد یوسف ، ای ڈی اوز ہیلتھ ڈاکٹر نذیر عاقب نیکو کارہ ، محکمہ تعلیم کے افسران اور تعلیمی اداروں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی ۔

(جاری ہے)

میڈم فوزیہ وقار نے خواتین کے حقوق کے بارے آئینی اور قانونی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت خواتین کا وراثت میں حصہ لازم بنانے کیلئے انتقال وراثت کے فوراـ بعد جائیداد کی تقسیم لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ جائیداد کی منتقلی کیلئے ورثاء کا خواتین سمیت شناختی کارڈ اور (ب)فارم ریونیو آفیسر ز کے سامنے پیش کرنا لازمی ہو گا۔

تاکہ کوئی حقدار محروم نہ رہے ورثاء کے 30یوم میں باہمی رضا مندی سے تقسیم جائیداد پر متفق نہ ہونے کی صورت میں ریو نیو آفیسر مذکورہ جائیداد کو حسب ضابطہ تقسیم کر دے گا۔ وراثتی جائیداد کے کیس کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر کر نا لازمی قرار د ے دیا گیا ہے ۔ خواتین کو وراثتی جائیداد کی منتقلی کیلئے 2012سے اسٹامپ ڈیوٹی پانچ سو روپے کر دی گئی ہے جبکہ رجسٹری انتقال کی مد میں رجسٹریشن فیس ختم کر دی گئی ہے۔

وراثتی شکایا ت کے ازالہ کیلئے ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔میڈم فوزیہ وقار نے مزید بتایا کہ پنجاب مسلم عائلی قوانین میں خواتین کے تحفظ کیلئے اصلاحات کی گئی ہیں۔ نکاح خواں کے شادی رجسٹر نہ کروانے پر تین ماہ قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہو سکتی ہے ۔نکاح رجسٹر ار دلہا دلہن کو نکاح نامہ کے تمام کالم پڑھ کر سنانے اور اسکے مطابق پر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے ۔

خلاف ورزی کی صورت میں ایک ماہ قید او ر 25ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔ پہلی بیوی کی موجودگی میں شادی اور ثالثی کونسل سے اجازت حاصل نہ کرنے کی صورت میں ایک سال تک قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے ۔ بیوی خاوند سے اپنے اور بچوں کے نان و نفقہ کے حصول کیلئے یونین کونسل سے رابطہ کر سکتی ہے۔ اسی طرح لڑکی سولہ سال سے کم اور لڑکے کی اٹھارہ سے کم عمر شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔

خلاف ورزی کی صورت میں چھ ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ ہے۔ بول صلح ، ونی جیسی منفی رسومات کے تحت لڑکی کی شادی کرنا ، قرآن سے شادی کرنا غیر قانونی ہے۔ جسکی سزا تین سے سات سال تک اور پانچ لاکھ جرمانہ ہو گا۔ کم عمری کی شادی کی شکایات پولیس ،یونین کونسل اورجوڈیشنل مجسٹریٹ کے پاس کی جاسکے گی۔ نیز لڑکی کی مرضی کے بغیر زبر دستی شادی کرنے والے کوتین سے سات سال قید اور پانچ لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نے بچوں کی پیدائش کے اندراج کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔ پیدائش و اموات کی رجسٹریشن فیس مکمل ختم کر دی گئی ہے۔ لڑکی اور لڑکے کی پیدائش کے ساٹھ دن کے اند رپیدائش کا اندراج متعلقہ یونین میں کرانا لازم ہو گا۔ سیکریٹری یونین کونسل بغیر کسی فیس کے تین دن کے اندر پیدائش سرٹیفکیٹ کرنے کا پابند ہے۔ دو ماہ سے زائد اور سات سال سے کم عمر لڑکی اور لڑکے کی پیدائش کے اندراج کیلئے سٹامپ پیپر پر دو گوہوں کے بیان کیساتھ متعلقہ یونین کونسل کو جمع کروانا ہو گا۔

جس سے یونین کونسل سات دن کے اندر پیدائش سرٹیفکیٹ بغیر کسی فیس کے جاری کرنے کا پابند ہے۔ سات سال سے زائد عمر کی صورت میں بھی یونین کو نسل میں درخواست جمع کروانا ہو گی ۔ہسپتال کے ایم ایس کی رپورٹ پر سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔ کسی شخص کے انتقال کی صورت میں اسکے لواحقین موت کی رجسٹریشن متعلقہ یونین کو نسل میں رجسٹرکروائیں گے۔ جس پر سیکریٹری یونین کونسل بلا معاوضہ فوری طور پر رجسٹریشن کرنے کا پابند ہو گا۔

خواتین کو اپنے حقوق اور شکایات کیلئے ٹال فری ہیلپ لائن نمبر 0800-93372جاری کر دی ہے۔ بعد ازاں میڈم فوزیہ وقار نے اپنے سرگودہا کے دورہ کے دوران کمشنر سرگودہا ڈویژن کیپٹن ریٹائرڈ محمد آصف کے علاوہ ڈی پی او سجاد حسن منج سے انکے دفتر میں ملاقات ۔ انہو ں نے دار الا مان اور ڈسٹرکٹ جیل کے دورہ کے موقع پر وہا ں خواتین کے مسائل کا جائزہ لیا۔

متعلقہ عنوان :