پاکستانی زرعی ماہر نے جنگلی اور غیر معیاری چاول میں جنیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ چاول کی نئی نسل تیار کر لی

یہ چاول ایسے علاقوں کے کسانوں کیلئے مفید ثابت ہو گا جہاں ہر سال سیلاب سے بڑے پیمانہ پر تباہی ہوتی ہے۔ ڈاکٹر فدا عباسی

جمعہ 18 ستمبر 2015 22:55

پاکستانی زرعی ماہر نے جنگلی اور غیر معیاری چاول میں جنیاتی تبدیلیوں ..

ایبٹ آباد۔ 18 ستمبر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18 ستمبر۔2015ء) پاکستانی زرعی ماہر نے جنگلی اور غیر معیاری چاول میں جنیاتی تبدیلیوں کے ذریعہ چاول کی نئی نسل تیار کر لی، زراعت کی دنیا میں تہلکہ برپا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے چاول کی اس نسل کے پودے کا قد 7 فٹ بلند جبکہ سٹہ کی لمبائی ایک سے ڈیڑھ فٹ اور دانوں کی تعداد 400 سے 700 کے درمیان ہے، پیداوار اور قوت مزاحمت عام پودوں کی نسبت 3 گنا زیادہ ہے، سیلابی علاقوں کیلئے چاول کی یہ نسل انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ جنیٹکس کے پروفیسر ڈاکٹر فدا محمد عباسی 15 سالہ تحقیق کے بعد چاول کی ایک ایسی نسل تیار کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو زرعی پیداوار کے شعبہ میں حقیقی معنوں میں انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

اس سلسلہ میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ پشاور کے ڈائریکٹر و چیف پلاننگ آفیسر خیبر پختونخوا ظہورالحق، ڈپٹی ڈائریکٹر عابد سہیل، ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہزارہ یونیورسٹی منیر احمد سواتی نے صوبائی حکومت کے تعاون سے بوئی میں واقع ریسرچ پلانٹ کا دورہ کیا اور چاول کی فصل کے حوالہ سے مکمل تفصیلات حاصل کیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر فدا محمد عباسی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ صوبائی حکومت کے تعاون سے بنائے جانے والے ریسرچ فارم میں بنیادی طور پر چاول کی تین اقسام پر تجربات کئے گئے جو کامیاب ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سٹے گرین رائس نامی چاول جو چاول کے جنگلی پودے میں جنیاتی ساخت کی تبدیلی کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے، کے پودے کا قد 6 سے سات فٹ اور پھلی (سٹے) کی لمبائی ایک سے ڈیڑھ فٹ تک ہے جس میں دانوں کی تعداد عام چاول سے دگنی سے زائد ہے جو 400 سے 700 کے درمیان ہے، اس کے تنے کی موٹائی عام پودے سے دگنی ہے جو پودے کو سخت موسمی حالات یعنی آندھی اور بارش میں مضبوطی فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اسی طرح پتوں کی لمبائی اور چوڑائی بھی زیادہ ہے جو ضیائی تالیف کے ذریعہ پودے کی خوراکی ضروریات کو بخوبی پورا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فدا نے بتایا کہ سٹے گرین رائس نہ صرف انسانی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اس سے جانوروں کیلئے چارے کی ضروریات بھی پورا کی جا سکتی ہے، مذکورہ نسل کا تجربہ پور ے خیبر پختونخوا میں انتہائی کامیاب رہا ہے اور بہت جلد اس کا پنجاب اور دیگر پیداواری علاقوں کیلئے بھی تجربہ کیا جائے گا۔

ڈاکٹر فدا کے مطابق یہ چاول ایسے علاقوں کے کسانوں کیلئے امیدکی نئی کرن ثابت ہو گا جہاں ہر سال سیلاب کے نتیجہ میں بڑے پیمانہ پر فصلوں کی تباہی کے بعد کسان زر آور فصلوں کی کاشت سے دلبرداشتہ ہو چکے ہیں کیونکہ اس چاول کا 7 فٹ طویل قد اور مضبوط تنا اسے ہر قسم کے موسمی حالات کا مقابلہ کرنے کے قابل بناتا ہے۔ ڈائریکٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ظہورالحق اور ڈپٹی ڈائریکٹر عابد سہیل نے اس موقع میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر فدا محمد عباسی کی دریافت بلاشبہ پوری دنیا کیلئے انقلابی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ان کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان دنیا کا واحد ملک بن چکا ہے جہاں محدود وسائل کے باوجود ڈاکٹر فدا محمد نے کامیاب تجربہ کرتے ہوئے پاکستان کو زرعی خودکفالت کی جانب گامزن کر دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت ہر قدم پر ایسے ماہرین اور سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرتی رہے گی جو اپنے ملک و قوم کیلئے کچھ کر گذرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر محمد فدا عباسی کی تحقیق کو اگلے چند ماہ میں کمرشل بنیادوں پر پیش کر دیا جائے گا اور ہمیں یقین ہے کہ اس تحقیق کا ملک و قوم کی ترقی میں خاطر خواہ کردار ہو گا۔

متعلقہ عنوان :