یو این رکنیت کی ناکام فلسطینی کوشش پر جنرل اسمبلی میں بحث

UN یو این جمعرات 2 مئی 2024 01:15

یو این رکنیت کی ناکام فلسطینی کوشش پر جنرل اسمبلی میں بحث

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 مئی 2024ء) اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر ڈینس فرانسس نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں پائی جانے والی تقسیم اس کے موثر طور سے اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی اکٹھےکام کر کے فلسطینی مسئلے کا منصفانہ اور پائیدار حل نکال سکتی ہیں۔

انہوں نے یہ بات جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں بھیجے گئے اپنے پیغام میں کہی ہے۔

یہ اجلاس فلسطین کی جانب سے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی درخواست کو سلامتی کونسل میں امریکہ کی جانب سے ویٹو کیے جانے کے بعد بلایا گیا ہے۔

2022 میں جنرل اسمبلی کی منظور کردہ ایک قرارداد کے تحت جب سلامتی کونسل میں کسی مسئلے پر ویٹو کا اختیار استعمال کیا جائے تو اس کا جائزہ لینے کے لیے 10 روز کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلانا لازمی ہے۔

(جاری ہے)

کونسل کے مستقل ارکان چین، فرانس، روس، برطانیہ اور امریکہ کو کسی بھی مسئلے پر پیش کی جانے والی قرارداد کو ویٹو یا مسترد کرنے کا حق حاصل ہے۔ ان پانچوں ممالک میں سے کوئی ایک بھی کسی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دے تو اسے کونسل کی منظوری نہیں مل سکتی۔

اس وقت فلسطین کو اقوام متحدہ میں 'مستقل مشاہدہ کار ریاست' کا درجہ حاصل ہے۔ اس حیثیت سے وہ ادارے کے تمام اجلاسوں میں شرکت کر سکتا ہے لیکن اسے کسی قرارداد پر ووٹ دینے اور سلامتی کونسل، جنرل اسمبلی اور اس کی چھ مرکزی کمیٹیوں میں ہونے والی فیصلہ سازی میں حصہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔

سلامتی کونسل کی ناکامی

ڈینس فرانسس نے کہا کہ کونسل اپنے ارکان میں پائی جانے والی تقسیم کے باعث دنیا میں قیام امن کے اپنے بنیادی مقصد کی تکمیل میں ناکام ہو رہی ہے۔

انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ حالیہ مباحثے میں یہ جائزہ لیں کہ اسمبلی اور کونسل بڑے تنازعات اور دنیا کو درپیش اہم مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے اکٹھے کام کیسے کر سکتی ہیں۔

دو ریاستی حل کے حامی ہیں: امریکہ

اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب مستقل نمائندے رابرٹ وڈ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے ان کے ملک پر عالمی امن و سلامتی کو بہتر بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ میں نئے ارکان کی شمولیت کے حوالے سے کونسل کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ سے عیاں ہے کہ اس کے ارکان میں فلسطین کی بطور رکن اہلیت کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں پایا گیا۔

امریکہ طویل عرصہ سے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ اپنے ہاں ضروری اصلاحات لائے۔ غزہ اس قرارداد میں متصور کردہ ریاست کا ایک لازمی حصہ ہے جبکہ وہاں دہشت گرد تنظیم حماس طاقت اور اثرورسوخ حاصل کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اس مسئلے کے دو ریاستی حل کا حامی ہے اور اس کی جانب سے فلسطین کی درخواست کو ویٹو کرنے کا مطلب اس کے ریاستی حیثیت حاصل کرنے کی مخالفت نہیں ہے۔

اس کے بجائے امریکہ سمجھتا ہے کہ ایسا تنازع کے دونوں فریقین کے مابین براہ راست بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔

رابرٹ وڈ نے مزید کہا کہ جنرل اسمبلی ایک ہی ویٹو پر دو اجلاسوں کا انعقاد کر رہی ہے اور حالیہ اجلاس قرارداد 262 سے مطابقت نہیں رکھتا اور اسمبلی کے وقت اور وسائل کے غیرمناسب استعمال کے مترادف ہے۔

مکمل رکنیت دیرینہ حق ہے: فلسطین

اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے مستقل مشاہدہ کار ریاض منصور نے کہا کہ وہ ایسے وقت اسمبلی میں کھڑے ہیں جب فلسطینیوں کا قتل عام بلاروک و ٹوک جاری ہے۔

جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل پہلے ہی جنگ بندی کا مطالبہ کر چکی ہیں اور اب اس میں مزید تاخیر نہیں کی جا سکتی۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ میں مکمل رکنیت فلسطینی کا دیرینہ حق ہے اور خود ارادیت، ریاستی حیثیت اور اقوام متحدہ میں رکنیت کے حق کو کسی بھی طرح اسرائیلی ویٹو کی نذر ہونے نہیں دیا جا سکتا۔اب فلسطین اس معاملے کو جنرل اسمبلی کے خصوصی ہنگامی اجلاس میں اٹھائے گا اور سلامتی کونسل پر زور دے گا کہ وہ اس کی درخواست پر نظر ثانی کرے۔

ریاض منصور نے تمام ارکان سے کہا کہ وہ غزہ میں تباہی کا سلسلہ روکنے اور آزادی و امن کو فروغ دینے کے لیے ہرممکن ذرائع سے کام لیں۔ فلسطین کی ریاستی حیثیت کو تسلیم کرنے کا یہی وقت ہے۔

انہوں ںے کہا کہ جن ممالک نے تاحال فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا انہیں احساس ہونا چاہیے کہ اب مزید تاخیر کی کوئی وجہ نہیں۔ جو فلسطینی ریاست اور امن کے موقع کو غارت کرنا چاہتے ہیں وہ اس میں کوئی تاخیر نہیں کر رہے۔

سرکش ریاست ناقابل قبول ہے: اسرائیل

اقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر گیلاد ایردان نے کہ منگل کو پاس اوور کا تہوار ختم ہوا ہے اور اس موقع پر ہر یہودی خاندان کا دل 7 اکتوبر کے واقعات کے سبب زخمی تھا۔ اسرائیل کے لوگ دکھ کی کیفیت میں ہیں جبکہ اقوام متحدہ ان ہولناکیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو انعام دینا چاہتا ہے۔ اقوام متحدہ اسرائیل سے لاپروائی نہیں برت سکتا۔

فلسطین کو ریاستی حیثیت دینے سے بڑھ کر اقوام متحدہ کی بوسیدہ اقدار کی کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے نہ تو کبھی حماس کی مذمت کی اور نہ ہی اسرائیلی یرغمالیوں کے لیے کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس کے بجائے یہ ادارہ فلسطین کی دہشت گرد ریاست کو تسلیم کرنے پر ہی اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ فلسطین نہ تو ریاست ہونے کے معیار پر پورا اترتا ہے اور نہ ہی اس کے رہنما نے حماس کی مذمت کی ہے۔

فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کے دو تباہ کن نتائج ہی برآمد ہوں گے۔ اس سے دہشت گردی مزید بڑھے گی اور فلسطینیوں کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ سمجھوتے کرنا تو درکنار مذاکرات کی میز پر بھی نہیں آ سکتے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ آج اقوام متحدہ امن کی راہ میں حائل ہے اور حالیہ اجلاس اس تنازع کے حل میں ایک بنیادی رکاوٹ کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔