باچا خان یونیورسٹی اور خاصہ دار چیک پوسٹ سانحات کی پہلی برسی ،شہداء کے لواحقین کا غم ایک بار پھرتازہ ہو گیا

پیر 9 جنوری 2017 19:50

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 جنوری2017ء) ماہ جنوری سانحہ باچا خان یونیورسٹی اور خاصہ دار چیک پوسٹ پر خود کش حملے میں شہید ہونے والے طالب علموں ، خاصہ دار اہلکاروں کے لواحقین کا غم ایک بار پھرتازہ ہو گیا ہے گزشتہ سال جنوری کے مہینے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں والدین کو اپنے جوانسالہ بچوں سے ، بیویوں کو اپنے سہاگ سے ، بچوں کو اپنے والدین سے جدا کردیا گیاتھا ۔

دونوں سانحات میں شہید ہونے والوں کی پہلی برسی کی آمد کے موقع پر ان کے گھر میں ایک بار پھر غم تازہ ہو گیا ہے دونوں سانحات میں شہید ہونے والے کے گھروں میں ایک بار پھر رقت آمیز مناظر د یکھنے میں آ رہے ہیں۔ بے رحم دہشت گردوں نے د رجنوں بچوں کو یتیم کیا بے رحم دہشت گردوں کی دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والوں کے غم میں ان کے والدین بھی چل بسے جنوری میں کارخانوں پھاٹک کے قریب ہونے والے خود کش حملے میں ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس محبوب شاہ آفریدی ، خاصہ دار فورس کے لائن آفیسر نواب شاہ آفریدی ، حوالدار گل صاحب ، عبدالرزاق ، زوجہ شعیب ملک ، تیمور ، دس سالہ شاہ زیب ، ان کے والد شاہ فیصل اور ان کی والدہ سمیت بارہ افراد نے جام شہادت نوش کیاتھا جبکہ پچیس ا فراد زخمی ہو ئے تھے ۔

(جاری ہے)

خود کش حملے میں چودہ کلو بارودکا استعمال ہواتھا اور اسسٹنٹ لائن آفیسر نواب شاہ کی گاڑی کو خود کش حملہ آور نے ٹارگٹ کیاتھا ۔ سانحہ خاصہ دار چیک پوسٹ میں ما ں ، باپ اور کمسن بیٹا بھی شہید ہوا تھا بدقسمت خاندان بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم حاصل کرنے کی عرص سے جمرود سے پشاور آ رہے تھے دس سالہ شاہ زیب سکنہ ملک دین خیل کے ہاتھ میں شہادت کے وقت دس روپے کا نوٹ تھاما ہوا تھا جسے اس کی والدہ نے دیا تھا اور سانحہ میں شاہ زیب کی نعش نے دہشت گردوں کو تو نہ رلایا تاہم خیبر پختونخوا اورفاٹا کے والدین باالخصوص خواتین کو ایسا رلایا تھاکہ یہ ان کے گھر کا کوئی فرد ہے۔

سانحہ میں جمرود کے رہائشی تیمور خان سکنہ سلیم شامل تھا سانحہ میں شہید ہونے والے تیمور کے کچھ عرصہ قبل منگنی ہوئی تھی اور تیمور خان گاڑی میں سی این جی بھرانے کے لئے سی این جی سٹیشن جا رہاتھا کہ موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ۔ صوبے کی تاریخ میں آرمی پبلک سکول کے بعد دوسرا بڑا سانحہ باچا خان یونیورسٹی پر حملہ تھا سانحہ باچا خان یونیورسی میں اکیس افراد شہید اورتیس زخمی ہو ئے تھے ۔

سانحہ میں پروفیسر حامد حسین سمیت بائیس قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا تھا باچا خان یونیورسٹی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ میں سیکورٹی فورسز نے کامیاب کاروائی کے دوران چاروں دہشت گردوںکو موقع پر ہلاک کیا تھا ۔ باچا خان یونیوسٹی کے سانحہ میں مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 23سالہ محمد آیاز ، کمپیوٹر بی ایس کے طالب علم کامران خان ولد مہتاب خان سکنہ سپئی نکئی بادام رستم مردان بھی شامل ہے ۔

شہید کامران نے ڈیڑھ سال قبل شادی کی جن کے چودہ ماہ کی بیٹی آج بھی اپنے والد کی راہ کی منتظر ہیں ۔ اور آج بھی اپنے بے گناہ والد کے شہادت کے بارے میں سوالیہ نشان ہے ۔ سانحہ باچا خان یونیورسٹی میں اسسٹنٹ لائبریرین افتخار بھی شہید ہواتھا جس کی شہاد ت سے بیس دن قبل شادی ہو ئی تھی ۔ سانحہ میں ہری چند سے تعلق رکھنے والے فضل ربیع کے بائیس سالہ بیٹے اور سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے آخری سمسٹر کے طالب علم شہزاد اور ہری چند کے خالد ولد عبدالعزیز جو کہ انگلش ڈیپارٹمنٹ کے تھے ۔ لوئر دیر کے علاقہ معیار سے تعلق رکھنے والے زوالوجی کے فائنل ائیر کے طالب علم سجاد ولد صالح محمد بھی سانحہ میں شہید ہو ا تھا ۔

متعلقہ عنوان :