متفقہ دستور کی موجودگی میں کسی فتویٰ یا دستاویزکی ضرورت نہیں، علامہ ساجد نقوی

اتوار 4 جون 2017 19:50

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 جون2017ء) قائد ملت جعفریہ پاکستان اور اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاہے کہ صدر مملکت ممنون حسین وفاق کی علامت اور قومی بیانیہ بارے ان کے خطاب کے نکات ہمارے مسلسل موقف کی مکمل تائیدہے۔ فتووں یا علماء سے بیانیے کے بجائے ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرے، آئین کے ہوتے ہوئے کسی فتویٰ کی ضرورت نہیں۔

البتہ نئے بیانیہ کیلئے کوششیں کیوں کی جا تی رہیں اور فتویٰ حاصل کر نے کے اصل اسباب و علل کیا ہیں یہ سوالات اپنی جگہ پر موجود ہے ۔شیعہ علما کونسل پنجاب کے صدر علامہ سبطین حیدر سبزواری سے گفتگو میں علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ صدر مملکت وفاق پاکستان کی علامت ہیں ،جنہوںنے اپنے خطاب میں انتہاء پسندی کے بچے کچھے اثرات کے خاتمے کیلئے قومی بیانیہ پوری قوت سے پیش کرنے کی ضرورت پر زوردیا، اس مقصد کیلئے حکومت، پارلیمنٹرینز ، سیاسی جماعتوں اور علمی و تحقیقی اداروں کو فعال کردار ادا کرنا چاہیے، یہی بات ہم نے کچھ عرصہ قبل کہی ۔

(جاری ہے)

صدر مملکت نے اپنے خطاب میں جن اکائیوں کی جانب توجہ دلائی وہ انتہائی سنجیدہ اور مثبت پیش رفت ہے، ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری نبھائے۔ علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ چند روز قبل اسلام آباد میں ایک سیمینار کے بعد فتویٰ یا بیانیہ جاری کیاگیا اس بیانیہ کو تیار کر نیکی کوشش بارے میں سوال جنم لے رہاہے کہ اس حوالے سے زیادہ دلچسپی کیوں دکھائی دی جارہی ہے اور وہ کون سے علل و اسباب ہیں جس کی وجہ سے اس بیانیہ کی ضرورت پیش آرہی ہے۔

ایسا لگتاہے کہ اس طرح کا بیانیہ جاری کرکے اصل مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی کی گئی جب کی دہشتگردی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، اس لئے ہماری دانست میں بیانیہ کاعمل اصل معاملے سے توجہ ہٹانے کے لئے ہے ۔مذکورہ فتویٰ پر بعض ایسے افرادسے دستخط لئے گئے جن کی درجہ بندی کے حوالے سے پوزیشن انتہائی کمزور ہے، اس عمل نے صادر ہو نے والے فتویٰ کو مزید مشوک بنادیا ہے ۔

کئی ایک دینی رہنمائوں کی طرف سے اسلامی یو نیورسٹی میں منعقدہ علماء کانفرنس اور اس کے جاری کردہ اعلانیہ کے بعض مندرجات پر جن تحفظ کا اظہار کیاگیا ہے وہ بھی قابل غور ہیں البتہ اب صدر مملکت کی طرف سے جس جانب توجہ دلائی گئی حقیقتاً یہی وہ بنیاد ہے جس کے تحت متفقہ قومی بیانیہ تشکیل پاسکتاہے اسی کے مدنظر ریاست کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے بیانیہ جاری کر نا ہوگا۔

اسلامی تحریک کے سربراہ نے ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے زور دے کر کہاکہ جب متفقہ آئین موجود ہے تو اس صورت میں کسی فتویٰ کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے جبکہ دستور پاکستان کے ہوتے ہوئے کسی فتویٰ یا دستاویزکی ضرورت نہیں۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ عرصہ میں جب بیانیہ بارے بہت شور اُٹھایا گیاتو اس وقت بھی ہم نے یہ کہا تھاکہ وزیراعظم جرات کریں اور علماء سے بیانیہ کا مطالبہ کرنے کی بجائے ریاست کا بیانیہ جاری کرا ئیںاور اس بیانیہ کو موثر بنانے کیلئے ذمہ داران کو سنجید ہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ، آخر کب تک قوم افراتفری، انتشار و فساد کا شکار رہے گی ۔