قومی اسمبلی اجلاس:قصور واقعہ کیخلاف متحدہ اپوزیشن کا سخت

احتجاج،وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ پنجاب حکومت ناکام ہو چکی ہے ،قصور میں یہ بارہواں واقعہ ہوا ایک ملزم بھی نہیں پکڑا گیا،لوگوں کی عزت و ابرو اور جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، اپوزیشن لیڈر حکومت ناکام ہو چکی ہے اعتراف کر لے ،ایسے واقعات میں عمر قید کی سزا قوم اور قوم کے بچوں کے ساتھ مذاق ہے،فائرنگ میں دو افراد کے قتل کی شفاف تحقیقات کی جائیں،شیری مزاری و دیگر کا اظہار خیال صرف قصور نہیں لاڑکانہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایسے واقعات ہو چکے ،کس نے ملزمان کو سزا دی،کہ ہمیں معاشرے کی بہتری کیلئے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے ، شاہنواز رانجھا

جمعہ 12 جنوری 2018 18:41

قومی اسمبلی اجلاس:قصور واقعہ کیخلاف متحدہ اپوزیشن کا سخت
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جنوری2018ء) قومی اسمبلی کے اجلاس میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے قصور میں کمسن بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل پر سخت احتجاج ، اپوزیشن اراکین کی حکومت کیخلاف تقاریر پنجاب حکومت کو نااہل قرار دیدیا جبکہ پنجاب پولیس کی جانب سے مشتعل افراد پر گولیاں برسانے پر وزیراعلیٰ پنجاب کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا اپوزیشن نے کہا کہ قصور میں یہ بارہواں واقعہ ہے اور جس میں سے ایک بھی واقعہ کا ملزم گرفتار نہیں ہوسکا پنجاب حکومت ناکام ہوچکی ہے پنجاب پولیس صوبے میں دہشتگردی کی علامت سمجھی جارہی ہے اگر بروقت اقدامات نہ کئے گئے تو ملک کے والدین اپنے بچوں کو غیر محفوظ سمجھیں گے جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں قصور واقعہ پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہے جس میں حکومت ناکام ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ واقعہ قصور تک محدود نہیں ہر شہر اور ہر گائوں میں ہے اور ایسے واقعات میں تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں پنجاب حکومت ناکام ہوگئی۔انہوں نے سوال کیا کہ کب تک مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہر جگہ جائیں گی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام خود کو محفوظ سمجھیں۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ واقعہ قصور میں نہیں ہر جگہ ہے، یہ واقعہ حکومت کی ناکامی ہے، اس مسئلے کو قرارداد، وعدوں اور تقریروں تک محدود نہ کیا جائے، صرف سزا کافی نہیں، ایسے واقعات روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ،ایک ایس پی کو ہٹا دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہ پارلیمنٹ نتیجہ مانگے گی، ان ماں باپ کو نتیجہ دیں۔

خورشید شاہ نے کہا کہ قصور واقعے نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ، جن کی بچیاں ہیں وہ تشویش میں ہیں، ہر ماں اپنی بیٹی کے ساتھ کہاں کہاں جائیگی انہوںنے کہا کہ حکومت نے پانچ سال کے عرصے میں ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں، حکومت بالکل ناکام رہی ہے آج لوگ مائیں باہر سڑکوں پر ہیں 120 واقعات میں سے ایک پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ان حالات میں لوگوں کا پارلیمنٹ سے اعتماد ختم ہوجائیگا اگر انصاف نہ ملا تو لوگ خود انصاف کرنا شروع ہوجائیگے پوری دنیا میں ایسے واقعات ہوتے ہیں لیکن وہاں ان واقعات کی انکوائری ہوتی ہے اور ایکشن لیا جاتا ہے اور ملزمان کو پکڑا جاتا ہے اور جیلوں میں بھیج دیاجاتا ہے قصور کا واقعہ حکومت کی ناکامی ہے ہمیں اس پر تشویش ہے ۔

وزیر مملکت شاہنواز رانجھا نے کہا کہ یسے واقعات صرف قصور میں نہیں بلکہ لاڑکانہ اور ڈیرہ اسمعیل خان میں بھی ہوتے ہیں ، کیا کہ ابھی تک کس نے ملزمان کو سزا دی ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشرے کی بہتری کیلئے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ اراکین اسمبلی نے خود کتنی مرتبہ اپنے اپنے حلقوں میں اس طرح کے واقعات کتنی مرتبہ ایسے کیسز کی پیروی کی ہو یا اس کی ایف آئی آر کے بارے میں کام کیا معلومات حاصل کی ہوں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں سے ریپ کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ہم نے قانون سازی کی اور سزا کو بڑھایا اور بچوں کے ساتھ زیادتی کو سزا بنایا۔انہوںنے کہا کہ قصور جیسے واقعات پرناکامی ہرجگہ پر ہے تاہم قصور جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ (ن) لیگ نے 2015ء میں قانون سازی کی اور سزا کو بڑھایا اس سے قبل بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والے کی سزا ایک سے سات سال تک تھی اگر پنجاب میں ایسے واقعات ہوئے ہیں تو کیا لاڑکانہ میں واقعات نہیں ہوئے کے پی کے ڈیرہ اسماعیل خان میں واقعات نہیں ہوئے ایسے واقعات میں جوڈیشری کا بھی کردار ہے پراسکیوشن کا بھی کردار ہے ایسے لوگوں کو عوام میں سزا دی جائے اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ ایسے واقعات میں عمر قید کی سزا قوم اور قوم کے بچوں کے ساتھ مذاق ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ قصور بچی کے قتل اور مظاہرے کے دوران دو افراد کے قتل میں بھی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ قصور واقعے سے ظاہر ہے حکومت ناکام ہوچکی ہے اور اسے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ قصور واقعہ علاقے میں 12واں واقعہ ہے اور ان تمام واقعات میں 5 ڈی این اے سیمپل میچ ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علاقے میں ایک سلسلہ وار قاتل موجود ہے تو حکومت کیا کر رہی تھی اور اس تمام تر صورتحال کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے کو سیاست کا رنگ نا دیاجائے قصور میں 2015ء میں 200سے زائد بچوں کو جنسی نشانہ بنایا گیا اور ان کی فلمیں بھی بنائی گئیں اس وقت کے وزیر نے کہا کہ یہ تو زمین کا مسئلہ ہے بچوں سے جنسی زیادتی کا مسئلہ نہیں ہے اور ان لوگوں نے ملزمان کو سزا ہی نہیں دی گئی حالانکہ ان کی تصویریں بھی سامنے آگئے وقت آگیا ہے کہ ہمارے معاشرے کو اس جیسے واقعات سے آزاد کریں ملک میں این جی اوز کو حکومت پناہ دیتی ہے این جی اوز جو چاہیں کرتی ہیں ان ملزمان کو لٹکایا جائے تھانہ ماڈل ٹائون میں بھی لوگوں کو مار دیا گیا اور ان پولیس افسران کو ترقیا ں دے دی گئی اب پھر آپ نے قصور میں وہی کام کیا اور دو لوگوں کو مار دیا گیا یہ حکومت کی نااہلی ہے افسوس کا مقام ہے کہ قصور کی بچی زینب کے والدین کو پنجاب پولیس پر اعتماد ہی نہیں تبھی وہ آرمی چیف اور کبھی چیف جسٹس کو انصاف کی التجاج کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایسی قراردادوں سے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ پہلے بھی کافی قراردادیں آئیں جو کہ اب ردی کی ٹوکری میں ہیں ۔

نعیمہ کشور نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور یورپ میں بھی ایسے واقعات پیش ہوتے ہیں لیکن یہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے یہاں ایسے واقعات برداشت نہیں ہونگے لاہور میں ایک شخص نے چھ سو سے زائد بچوں کو جلا دیا ایبٹ آباد میں بچیوں کو جلا دیا گیا ڈی آئی خان میں بچی کو زندہ درگور کردیا گیا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا قرآن پاک میں ایسے درندوں کیلئے سزائیں مقرر ہیں کہ ان لوگوں کو سنسار کردیا جائے آج پورے ملک کا میڈیا اور عام لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو سرعام سزا دی جائے اگر قرآن کی رو سے سزائیں دی جائیں تو ان جیسے واقع تھم جائینگے سزائیں کم کرنے کی بجائے مزید عمل درآمد ضروری ہے ممبر قومی اسمبلی کشورزہرہ نے کہا کہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی معاشرے کو ہلاکر رکھ دیتی ہے قوانین کتابوں میں بند ہیں کچھ عرصہ میں بارہ واقعات پیش آتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے حکومت وقت کی ناکامی ہے حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ مشتعل لوگوں پر گولی چلا سکتی ہے لیکن ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئی ہے صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ آج دوبارہ اس مسئلے پر بات ہورہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے کا معمول بن چکا ہے قصور کا واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ یہ اپنی نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے پنجاب میں سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں قصور کے بارہ کیسوں میں ایک بندہ بھی نہیں پکڑا گیا یہ پنجاب حکومت کی ناکامی ہے اور ان کا مجرم حاکم اعلیٰ ہے وزیراعلیٰ رات کو چھپ کر ان کے گھروں میں جاتا ہے وہ وہاں کی عوام کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں یہ ایوان ایک مثال قانون سازی کرے تاکہ آئندہ کوئی بھی بندہ ایسا کام نہ کرے ۔