اوپن یونیورسٹی میںتین روزہ فیسٹیول کے دوسرے دن 13ادبی محافل

یونیورسٹی کو علمی ،ْ ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بنانا میرا مشن تھا جس کی تکمیل ہوگئی ہے ،ْڈاکٹر شاہد صدیقی

ہفتہ 14 اپریل 2018 14:39

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اپریل2018ء) علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں منعقد ہ تین روزہ لٹریچر کارنیوال کے دوسرے دن"ادب کی اشاعت:مسائل اور امکانات"کے موضوع پر منعقدہ پہلے سیشن کے مقررین نے کتاب دوست معاشرے کی تشکیل کے لئے مصنفین اور پبلشرز کے مابین مضبوط روابط کی ضرورت پر زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ لکھنے والے کو مصنف پبلشر ہی بناتا ہے اس لئے اس رشتے کو جوڑنے کی اشد ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ ادب اور معاشرے میں دوری پائی جاتی ہے کیونکہ کثرت سے ادبی رسائل نکلتے ہیں ،ْ ظاہر ہے کہ وہ رسائل فروخت بھی ہوتے ہیںاور پڑھے بھی جاتے ہوں گے جس سے ظاہر ہوتا کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ ہم ادب سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اس کام میں پبلشرز کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کتاب حقیقی معنوں میں انسان دوست ہے اور ہم نہ کتاب کے ساتھ نہ صرف اس تعلق کو قائم رکھنا ہے بلکہ مضبوط بھی کرنا ہے اور کہا کہ اوپن یونیورسٹی میں لٹریچر کارنیوال کا انعقاد بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔

تقریب کی صدارت فرخ سہیل گوئندی نے کی جبکہ مقررین میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید ،ْ افضل احمد ،ْ گگن شاہد شامل تھے۔ افتتاحی /خیر مقدمی کلمات پیش کرتے ہوئے وائس چانسلر ،ْ پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ یونیورسٹی کو علمی ،ْ ادبی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز بنانا میرا مشن تھا جس کی تکمیل ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کا یہ سیشن بہت اہم ہے کیونکہ یہ کتاب اور اس کی اشاعت کے حوالے سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ کتاب دوست معاشرے کی تشکیل کے لئے ہمیں نئی نسل کو کتاب کے ساتھ تعلق جوڑنے کی طرف راغب کرنا اوران میںبک ریڈنگ کی عادت ڈالنا ہوگی کیونکہ کتاب ملک کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فیسٹول کے دوسرے دن 12۔مزید ادبی نشستیں منعقد کی گئی ،ْدوسری سیشن میں "ترجمہ کاری فن اور تنقید"پر بحث مباحثے ہوئے ،ْ اس سیشن کے شرکاء میں ڈاکٹر شیراز ستی ،ْ یاسمین حمید ،ْ ڈاکٹر غلام علی اور عاضم بخشی شامل تھے۔

اس کے بعد شعبہ پاکستانی زبانیں و ادب کے زیر اہتام پیرلل سیشنوں کا آغاز ہوا۔ پیرلل سیشن 3 "میاں محمد بخش کے صوفیانہ افکار'کے موضوع پر تھا ،ْ مقررین میں ڈاکٹر عبدالواجد تبسم ،ْ پروفیسر حمید الله شاہ ہاشمی اور ڈاکٹر شائستہ نزہت شامل تھے۔ پیرلل سیشن 4 "شیخ ایاز :فکر و فن" کے عنوان پر تھا،ْ اس ایونت کے مقررین میں ڈاکٹر حاکم علی برڑو ،ْ فاطمہ حسین اور انعام شیخ تھے۔

پیرلل سیشن 5 "زیتون بانو:فکر و فن"پر منعقد کیا گیا۔ اس تقریب کے معاون ڈاکٹر عبدالله جان عابد تھے جبکہ شرکاء میں م ر شفق اور ڈاکٹر اسماعیل گوہر شامل تھے۔پشتوزبان کی نامور افسانہ نگار محترمہ زیتون بانو نے اپنی ادبی زندگی کے مختلف مراحل اور پہلوئوں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور آج سے ستر سال پہلے کے مخصوص پختون معاشرے ،ْ میں انہیں حصول علم ،ْ شعر و ادب سے تعلق اور ملازمت اختیار کرنے کے مراحل میں درپیش مشکلات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ میرا قلم میری زبان کا کام کرتا رہا۔

زیتوں بانو نے ادب کے قدیم اور جدید رجحانات اور اسلوب تحریر کا موازنہ کیا اور کہا کہ تنقیدی ادب انسان کی ذاتی ،ْ ذہنی ،ْ جذباتی اور سما جی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور معاشرہ کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔پیرلل سیشن 6 "معاصر اردو افسانہ"پر تھا جس کے مقررین فرخ ندیم ،ْ زاہدہ حنا ،ْ محمد حمید شاہد اور ناصر عباس نئیر تھے۔ سیشن 7 "معاصر اردو نظم "کے متعلق تھا۔

اس تقریب کے مقررین میں ڈاکٹر سعید احمد ،ْ ڈاکٹر وحید احمد ،ْ علی محمد فرشی ،ْ حفیظ خان اور ڈاکٹر روش ندیم شامل تھے۔ پیرلل سیشن 8 "میر گل خان نصیر:فکر و فن"پر تھا ،ْ اس تقریب کے معاون ضیاء الرحمان بلوچ جبکہ شرکاء میں ڈاکٹر واحد بخش بزدار اور ڈاکٹر علی کمیل قزلباش شامل تھے۔ سیشن9 "فیض کے بعد"کے معاون یاسمین حمید جبکہ شرکاء گفتگو میں پروفیسر فتح محمد ملک ،ْ افتخار عرف اور کشور ناہید شامل تھے۔

سیشن 10میں داستان گوئی کی تقریب منعقد ہوئی ،ْ معاون ڈاکٹر عبدالستار ملک اور شرکاء میں ملک توقیر احمد اور آصف حسین شاہ شامل تھے۔سیشن 11میں شعر خوانی کا محفل سجایا گیا۔ اس تقریب کے معاون محبوب ظفر اور مہمان خصوصی خالد مسعود تھے۔ سیشن 12میں بیت بازی منعقد کی گئی جس کے مہمان خصوصی ناصر علی سید جبکہ معاونین میں ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر شیراز زیدی شامل تھے۔ فیسنول کے دوسرے دن کی آخری تقریب رنگ تصوف)عارفانہ کلام(تھا۔ اس تقریب کے معاون ڈاکٹر ظفر حسین ظفر تھے۔

متعلقہ عنوان :