بلوچستان ہائیکورٹ کے ڈویژنل بینچ نے ترقیاتی اسکیموں سے متعلق دائر آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا

صوبے میں مردم شماری کی فہرست کے مطابق ترقیاتی سکیمیں دی جائیں، ججز کے ریمارکس

پیر 30 اپریل 2018 23:26

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 30 اپریل2018ء) بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس ظہیر الدین کاکڑ پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے ترقیاتی اسکیموں سے متعلق دائر آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ صوبے میں مردم شماری کی فہرست کے مطابق ترقیاتی سکیمیں دی جائیں اور عوام کے فائدے کو ملحوظ خاطر رکھاجائے ،ہم اچھے کام کی تعریف کرتے ہیں اور غلط کام پر پکڑتے ہیں ،غیر ضروری اخراجات کو ختم کیاجائے ۔

گزشتہ روز سماعت کے دوران صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی ،رکن بلوچستان اسمبلی انجینئر زمرک خان اچکزئی ،وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری حافظ عبدالباسط ،سیکرٹری خزانہ قمر مسعودسمیت دیگر متعلقہ حکام عدالت کے روبرو پیش ہوئے سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیاکہ انہیں بتایاجائے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کس قانون کے تحت پیسے بانٹتے پھررہے ہیں ،وزیراعلیٰ کی جانب سے تقسیم کردہ رقوم کا ریکارڈ وقفہ کے بعد پیش کیاجائے ،اس موقع پر عدالت نے سماعت کو کچھ دیر کیلئے ملتوی کردیا۔

(جاری ہے)

دو با رہ سماعت شروع ہوئی تو ایڈووکیٹ جنرل رئوف عطاء ایڈووکیٹ نے بتا یا کہ رکن اسمبلی ترقیاتی اسکیم کی نشاندہی کرسکتاہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ اسکیم کوپبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پلان(پی ایس ڈی پی )میں شامل ڈال دیں مگر اس کا نام تو دیں سماعت کے دوران صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی نے کہاکہ فنڈز کی منظوری کیلئے سفارشات حکومت ،کابینہ ،پی ایس ڈی پی اور دوبارہ حکومت کے پاس جاتی ہے ،اسمبلی گرانٹ منظور کرکے آرٹیکل 124کے تحت اسے وزیراعلیٰ بلوچستان کو دیتی ہے اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے رئوف عطاء ایڈووکیٹ نے آرٹیکل 124عدالت کے روبرو پڑھ کر سنایا جبکہ صوبائی وزیر داخلہ میر سرفرازبگٹی بولے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پلان تیار ہونے کے بعد وزیراعلی کے سامنے آنے والے معاملات ایس ڈی آئی میں طے ہوتے ہیں جو بھی تعمیراتی کام سامنے آتا ہے اس سے وزیراعلی کابینہ کے سامنے رکھتے ہیں متعدد بار کابینہ اسکیمات کی منظوری نہیں دیتی جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ 15یا 20دن تو حکومت کی مدت رہ گئی ہے ایسی کیا ایمرجنسی ہے کہ لوگ پریشان ہوں، میر سرفرازبگٹی بولے کہ وزیراعلیٰ صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہے انہی کی منظوری سے ہی اسکیمات منظور ہوتی ہے تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ آپ کی حکومت ہے آپ کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری پر اعتبار نہیں ہے اگر یہ آج نہیں ہوا تو کونسی قیامت آئے گی ۔

اس پر سرفرازبگٹی نے کہاکہ اتھارٹی چیلنج ہوگی مزید کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں عدالتوں ،اسمبلی اور آپ کااحترام ہے اراکین اسمبلی بھی اداروں کو مضبوط کرے سرفرازبگٹی بولے کہ ہمارے علاقے میں ایک لاکھ آبادی ہے لیکن پی ایچ ای پانی نہیں دے رہا جس ذریعے سے پانی مل رہا تھا وہ ختم ہوگیاہے۔ تو جسٹس جمال خان مندوخیل ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ کیا حکومت نے 15سالوں میں طویل المدتی منصوبوں کیلئے کوئی پالیسی مرتب کی ہے میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ اگر حکمران نااہل ہے تو عوام 5سال بعد اس کا فیصلہ کرتی ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیاکہ حکومت ،کابینہ جو فنڈز منظور کرتی ہے اس کی ضرورت سے متعلق اداروں سے پوچھنا ضروری ہوتاہے۔

سرفرازبگٹی نے کہاکہ وزیراعلی اور کابینہ حکومت ہے، اسکو جو اختیار ملا ہے اس پر ہم بات کرسکتے ہیں۔سماعت کے دوران لعل جان جعفر نے عدالت کو بتایاکہ ایس ڈی آئی کی ساری اسکیمات کی کابینہ نے منظور کرکے ان کی ایلوکیشن کی ہے جبکہ میرسرفرازبگٹی نے کہاکہ وزیراعلیٰ اور کابینہ ہی منظوری کا فورم ہے اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ عام آدمی کی رسائی رکن اسمبلی ،وزیر اور وزیراعلیٰ تک نہیں ہے یہ فنڈز اگر ہسپتالوں میں خرچ کرے تو کسی قسم کی سفارش کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ۔

سرفرازبگٹی نے کہاکہ عدالت کی ہدایت پر ہم نے فنڈز ختم کردئیے جبکہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیاکہ صوبائی حکومت کے سابق مشیر قیصر بنگالی کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں کرتے ہمارے وسائل امریکہ کے بجٹ جتنے ہوں تو بھی مسائل ختم نہیں ہونگے سرفرازبگٹی نے کہاکہ ہم عوامی فلاح کیلئے موجود ہے صوبے میں سیاست کا محور تبدیل ہوگیاہے ہم نے اہم وزارتوں اور محکموں میں قابل افسران تعینات کئے اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور سیکرٹری خزانہ اہل افسران ہے ہمیں ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں انہوں نے سیکرٹری خزانہ کے ساتھ مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ حکومت کی کوئی ایسی سکیم ہے جسے ہم پر نوکریوں کی بارش ہو تو سیکرٹری خزانہ قمر مسعود بولے کہ ہم نے پبلک گورنمنٹ ایکٹ پاس کیاہے جس کا آئندہ سالوں میں فائدہ ہوگا جبکہ سرفرازبگٹی بولے کہ ہم اپنی پیٹرولیم کمپنی بنارہے ہیں جو مستقبل میں بہتر کام کریگی، ہم نے بہت کام کیا ہے ایک رات میں تبدیلی نہیں آسکتی، اس کے ساتھ ڈیرہ بگٹی کو ماڈل سٹی بنانے کا منصوبہ بنایا ہے، تو جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ ہم اچھے کام کی تعریف اور غلط کام پر پکڑتے ہیں غیر ضروری اخراجات ختم کرے وفاق نے ایک ارب زیارت کیلئے دئیے وہ کہاں گئے عدالت نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ صوبے میں مردم شماری کی فہرست کے مطابق اسکیمات دی جائے اور عوام کے فائدے کو ملحوظ خاطر رکھاجائے آئندہ 75فیصد بجٹ جاری اسکیمات کیلئے رکھیں اس کے بعد عدالت نے مذکورہ درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیااور سماعت ملتوی کردی ۔