یونیورسٹی آف سرگودھا میں ’’ اردو اور عالمگیریت‘‘ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس

اردو زبان اپنے اندر علم و ادب کے خزانے سموئے ہوئے ہے۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو پر بھی عالمگیریت کے اثرات مرتب ہوئے ‘ڈاکٹر تبسم کاشمیری

جمعرات 10 مئی 2018 14:28

سرگودھا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 مئی2018ء) یونیورسٹی آف سرگودھا میں ’’ اردو اور عالمگیریت‘‘ کے موضوع پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں ملکی و غیر ملکی مندوبین نے عالمگیریت کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو سمیت دیگر علاقائی زبانوں کے فروغ کے لیے مختلف تجاویز پیش کیں۔ کانفرنس میں نقاد ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے کہا کہ اردو زبان اپنے اندر علم و ادب کے خزانے سموئے ہوئے ہے۔

دیگر زبانوں کی طرح اردو پر بھی عالمگیریت کے اثرات مرتب ہوئے ہیں خاص طور پر انٹرنیٹ تک عام آدمی کی رسائی سے جہاں اردو زبان کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا وہیں دیگر زبانوں کی ملاوٹ ہونے سے اس زبان کی اصل ساخت متاثر ہوئی۔ انہوں نیکہا کہ نو آبادیاتی نظام کی ایک اور شکل عالمگیریت ہے۔

(جاری ہے)

عالمگیریت کی برے اثرات کی وجہ سے متاثر ہونے والے ملکوں میں ترقی کے امکانات محدود ہو گئے ۔

ڈاکٹر سید جعفر علی نیکہا کہ سرمائے کا شروع سے ہی رجحان عالمگیریت کی طرف رہا ہے۔ عالمگیریت کے اثرات معیشتوں تک محدود نہیں، سیاست، ماحولیات، تہذیب و ثقافت سب اس سے بہت متاثر ہوئے ہیں نیز ریاستوں کے تصورارت بدل کر رکھ دیے ہیں اور ریاستوں کی دفاع و اتحاد کے حوالے سے نئی حکمت عملی سامنے آ رہی ہے اور مملکتوں کی انفرادی حیثیت ختم ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زبانیں کلچر کے اظہار کا اہم ذریعہ ہیں ،کلچر اور زبان میں گہرا رشتہ ہے، دونوں کا نامیاتی رشتہ ان کو وحدت میں پرو دیتا ہے،یہ رشتہ اتنا گہرا اور پیوستہ ہے کے بعض اوقات’ کلچر کی زبان اور’ زبان کا کلچر ‘کے موضوع پر بحث کی جاتی ہے۔ عالمگیریت کی وجہ سے متنوع کلچر، زبانیں، رسوم وروایات، عقائد و نظریات ہمارے علم کا حصہ بن رہے ہیں۔

وقت کے تقاضوں کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کی دوسری ثقافتوں کے وجود کا اقرار کریں تاکہ کشیدگی کی راہ بند ہو۔ عالمگیریت کے اس دور میں یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر کی زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔اردو زبان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ اردو زبان اس وقت کہاں کھڑی ہے۔ہمیں اردو کے مستقبل کے حوالے سے سوچنا ہوگا کیونکہ مستقبل قریب میںتین ہزار زبانیں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی، زبانوں کے ساتھ تہذیبی سرمایہ بھی ختم ہو جائے گا۔

ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اردو زبان کو کس طرح جدید علم وتحقیق کی زبان بنائیں، عالمگیریت کے طوفان کے سامنے وہی ثقافتیں اپنے آپ کو بچا سکی ہیں جو علم و تحقیق کی بنیاد پر پآں جمائے رکھیں۔وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ انسانی تاریخ کے ساتھ ہی عالمگیریت کا عمل جاری ہے، آئندہ اس کے رجحانت کیا ہوں گے، اندازہ مشکل ہے۔ہم عالمگیریت، ٹیکنالوجی، تخلیق اور جدت کے ساتھ ربط قائم نہیں کریں گے تونئے مواقعوں سے دور رہیں گے۔

عالمگیریت کے حوالے سے ابہام دور کرنے کی ضرورت ہے۔دہشت گردی عالمگیریت کا تاریک ترین پہلو ہے تو اسی کی وجہ سے مختلف ممالک قریب آئے، لوگ قریب آئے، ایک دوسرے پر انحصار بڑھا اور یہی عالمگیریت ہے۔گزشتہ چند سالوں میں ایسی تبدیلیاں آئیں جس کی وجہ سے عالمگیریت کے تصور کو جلا ملی۔گلوبلائزیشن کی وجہ سے ریجنلائزیشن اور لوکلائزیشن کو بھی فروغ مل رہا ہے۔

مختلف ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ وہ عالمگیریت کی ڈیمانڈز کو پورا کریں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں بحیثیت قوم تہذیب یافتہ بننا ہے اورتنگ نظری کو چھوڑ کرعالمی امن، ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے۔چیئرمین شعبہ اردو ڈاکٹر سید عامر سہیل نے کہا کہ یونیورسٹی آف سرگودھا روشن خیال ترقی پسند فکر کو پروان چڑھاکر نوجوان نسل کی درست سمت میں تربیت کر رہی ہے، یونیورسٹی میں تعلیمی و تحقیقی میدان میں جدید تقاضوں کے پیش نظر گزشتہ ایک سال کے دوران 35 سے زائدقومی و بین الاقوامی کانفرنسز منعقد ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے باہمی گفتگو اور مکالمہ کو فروغ ملا۔

شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس کانفرنس کے مختلف سیشنز میں قومی وبین الاقوامی ماہرین نے مقالہ جات پیش کئے۔