آئی جی اسلام آباد کی ناک تلے اغواء کاروں کے منظم گینگ چلائے جانے کا انکشاف

31 مارچ کو تھانہ کورال کے علاقے غوری ٹائون سے شہری کے اغواء کا مقدمہ نمبر 161 درج کرکے پولیس نے روایتی انداز میں تفتیش شروع کردی

پیر 14 مئی 2018 22:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 مئی2018ء) آئی جی اسلام آباد کی ناک تلے اغواء کاروں کے منظم گینگ چلائے جانے کا انکشاف ہوا ہے‘ 31 مارچ 2018 ء کو تھانہ کورال کے علاقے غوری ٹائون سے شہری کے اغواء کا مقدمہ نمبر 161 درج کرکے پولیس نے روایتی انداز میں تفتیش شروع کردی۔ ذرائع نے آن لائن کو بتایا مغوی عثمان کی پراڈو گاری نمبر UW-968 تھانہ کراچی کمپنی میں کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے بند کردی گئی ہے۔

بعد ازاں اغواء کار مغوی عثمان کو پولیس کی ملی بھگت سے گاڑی چھڑانے کیلئے تھانہ کراچی کمپنی پہنچ گئے ہیں۔ جس پر مدعی مقدمہ ذیشان نے تھانہ کراچی کمپنی پولیس کو بتایا کہ اس کے بھائی کو نامعلوم افراد اغواء کرکے کروڑوں روپے تاوان وصول کر چکے ہیں۔ جس پر تھانہ کراچی کمپنی کے باہر آن لائن کو تفصیلات بتاتے ہوئے بااثر افراد جو کہ پانچ سے زائد گاڑیوں پر سوار تھے نے ہراساں کرنا شروع کردیا اور دھمکی دی کہ اس رپورٹر کو جانے نہیں دینا ۔

(جاری ہے)

جس پر 15 کو اطلاع دی گئی کیونکہ تھانہ کراچی کمپنی کے ایک سب انسپکٹر نے ڈیوٹی پر مامور آصف نامی کانسٹیبل کو کہا کہ انسپکٹر جنرل پولیس کا حکم ہے کہ اس کو اندر داخل نہیں ہونے دینا بعد ازاں اسلام آباد کرائم اینڈ کورٹ رپورٹر ایسوسی ایشن کے صدر شکیل احمد نے معاملہ کو پولیس کی غنڈہ گردی قرار دیا۔ دوسری جانب مدعی مقدمہ کا کہنا تھا کہ یہ بااثر لوگ ہیں ان کی جانب سے ہمیں بھی مسلسل دھمکیاں دی جارہی ہیں اور کروڑوں روپے تاوان کی رقم بھی وصول کر چکے ہیں اور پولیس نے مبینہ طور پر کروڑوں روپے بطور رشوت لے کر ملزمان کو فرار کروا دیا ہے جبکہ میرے بھائی کو مجھے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی اور پولیس نے مغوی ذیشان کو نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے انسپکٹر جنرل پولیس کی سرپرستی میں چلنے والے اغواء کاروں کے منظم گینگ کی اطلاع ملتے ہی کورال پولیس ایس ایچ او نواز بھٹی کے ہمراہ تھانہ کراچی کمپنی پہنچ گئے ایک گھنٹہ میٹنگ کے نام پر ڈیل کرکے نہ صرف ملزمان کو چھوڑ دیا گیا بلکہ مغوی کو سینئر پولیس افسران کے حکم پر کورال پولیس کے حوالے کرنے سے بھی انکار کردیا۔

جس کے بعد کورال پولیس کی ٹیم خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔ دوران کوریج ہراساں کرنے اور جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرنے کے حوالے سے پولیس افسران کی معنی خیز خاموشی محکمہ پولیس اور حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔