مذہبی انتشار پھیلانے پر ڈاکٹر عامر لیاقت کا پروگرام بند ہونے کے بعد ایک اور جھٹکا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 29 مئی 2018 15:10

مذہبی انتشار پھیلانے پر ڈاکٹر عامر لیاقت کا پروگرام بند ہونے کے بعد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 29 مئی 2018ء) : معروف میزبان اور پی ٹی آئی رہنما ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو ان کی شعلہ بیانی اور بے باک شخصیت کے طور پر جانا ہے۔ حال ہی میں نجی ٹی وی چینل پر مذہبی منافرت اور انتشار پھیلانے پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر پیمرا نے پابندی عائد کر دی تھی ۔ پیمرا کی پابندی کے بعد اب ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو ایک اور جھٹکا لگ گیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بُک کی انتظامیہ نے بارہا رپورٹ ہونے پر پاکستانی میزبان کا پیج بھی ڈیلیٹ کر دیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ نجی ٹی وی چینل پر پروگرام کے دوران ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے نہ صرف پیمرا قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ اپنے مداحوں کو بھی خاصا مایوس کیا۔ عامر لیاقت کے مذہب اور فرقہ واریت سے متعلق بیانات اور ان پر بحث کرنے کے طریقے کو سوشل میڈیا صارفین نے کافی تنقید کا نشانہ بنایا اور عامر لیاقت حسین کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔

(جاری ہے)

پیمرا کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں بتایاگیا کہ مذہبی بحث اور مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پر 30 دن کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس پروگرام میں عامر لیاقت نے بھارتی سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک کے حوالے سے غیر ضروری معاملہ پر بھی بحث کی ۔جس کا مقصد صرف اور صرف ریٹنگ کا حصول تھا۔

اس کے علاوہ پیمرا کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکشن میں پیمرا نے نجی ٹی وی کو ہدایت کی کہ وہ عامر لیاقت کی میزبانی میں چلنے والے پروگرام رمضان میں بول اور ایسا نہیں چلے گا کو براڈکاسٹ یا ری براڈکاسٹ نہ کرے۔ سوشل میڈیا صارفین نے بھی اپنی بھڑاس نکالی اور فیس بُک پر موجود عامر لیاقت حسین کے پیج کو رپورٹ کیاجس کے بعد فیس بُک انتظامیہ نے عامر لیاقت حسین کا پیج ہی ڈیلیٹ کر دیا۔

پیمرا کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کے بعد ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایک اور بڑی مصیبت میں پھنس گئے۔عامر لیاقت کی جانب سے دئیے جانے والے متنازعہ اور فرقہ وارانہ بیانات پاکستان تحریک انصاف میں عامر لیاقت کی موجودگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔پارٹی کے  سینئیر رہنماؤں کو بھی خدشہ ہے کہ عامر لیاقت کے متنازعہ بیانات سے پارٹی کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے اور ان کے فرقہ وارانہ طرز عمل سے پی ٹی آئی کا ووٹ بینک بھی متاثر ہو سکتا ہے۔