سینیٹر شمیم آفریدی کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی ذخائر کا اجلاس

ملک میں پانی کی قلت کو پورا کرنے کیلئے ڈیمز بنانے ضروری ہیں ، 25 ملین ایکڑفٹ پانی ضائع ہورہا ہے جس کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے، چیئرمین کمیٹی پانی کی کمی کو پورا کرنے ذخائر میں اضافہ ،خراب پانی کودوبارہ پینے کے قابل بنانا ضروری ہے،چیئرمین واپڈا کی کمیٹی کو بریفنگ

بدھ 6 جون 2018 18:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 جون2018ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی ذخائر نے کہا ہے کہ ملک میں پانی کی قلت کو پورا کرنے کیلئے ڈیمز بنانے ضروری ہیں ، 25 ملین ایکڑفٹ پانی ضائع ہورہا ہے جس کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر شمیم آفریدی کی صدارت میں بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں سینیٹرز سید شبلی فراز، گیان چند، آغا شاہزیب درانی ، سید صابر شاہ ، ڈاکٹر جہانزیب جمال دینی ، مس قرة المری کے علاوہ چیئرمین واپڈالیفٹیننٹ جنر ل (ر) مزمل حسین شاہ ، چیئرمین ارسا احمد کمال اور متعلقہ اداروں کے حکام نے شرکت کی ۔

اجلاس میں ملک میں آبی ذخائر اور پانی کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مختصر مدتی، درمیانی مدتی اور طویل المدتی منصوبہ جات اور اس حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات کے بارے میں چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنر ل (ر) مزمل حسین شاہ نے بریفنگ دی۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 3 فیصد پینے کا صاف پانی ہے جس میں 70 فیصد پانی گلیشئر سے آتا ہے۔ 24 فیصد زیر زمین سے جبکہ ایک فیصد دریائوں اور ندیوں سے آتاہے۔ انہوں نے کہا کہ 1951 میں پاکستان میں 5 ہزار مکعب میٹر فی کس پانی میسر تھا جبکہ اب 900 مکعب میٹر فی کس ہے ۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ 1979 میں اوسط پانی183 ملین ایکٹر فٹ تھا جبکہ اب 145 ملین ایکٹر فٹ ہے ۔

آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان 15 ممالک میں شامل ہے جن کو پانی کی کمی کا خطرہ لاحق ہے ۔صرف 2 فیصد گندے پانی کو دوبار ہ پینے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ چیئرمین واپڈ ا لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین شاہ نے کمیٹی کو بتایا کہ کل پانی کا 90 فیصد آبپاشی میں استعمال ہورہا ہے اور اس میں 50 فیصد پانی فرسودہ کنوئوں کے نظام اور پانی چوری کی وجہ سے ضائع ہورہا ہے جس سے پانی کی قلت میں اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔

70 سے زائد ایس سی اے آر پی ایس منصوبہ جات جاری ہیں۔6 ہزار 919 میگاواٹ بجلی پانی سے پیدا کی جارہی ہے۔ پانی کا ذخیرہ 18 ملین ایکڑ فٹ سے زائد ہے جس میں تربیلا ڈیم کی گنجائش 6.17 ملین ایکڑ فٹ ہے ۔ انہوں نے کمیٹی بتایا کہ اب تک 25 ملین ایکڑفٹ پانی ضائع ہورہا ہے جس کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے ۔ تربیلا ڈیم میں 36 فیصد پانی کم جمع ہوا ہے ۔ دیا مر بھاشا ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی عمر 25 بڑھ جا ئے گی ۔

پاکستان میں کل 155 ڈیم ہیں جن میں 30 دنوں کیلئے پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے جو 120 دن ہونے چاہئیں۔ مالی سال 2017-18 میں پانی کے مختلف منصوبہ جات کیلئے پی ایس ڈی پی میں 174651 ملین روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 36750 ملین روپے ادا کیے گئے ہیں ۔ چیئرمین واپڈا نے کمیٹی کو بتایا کہ خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کے ملحقہ علاقوں میں ڈیم بنانے کیلئے ان میںموجود مسائل کے حل کیلئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں ۔

بلوچستان میں کچھی کنال 72 ہزار ایکڑ اراضی کو سیراب کرتی ہے جسے 13 ستمبر2017 کو مکمل کیا گیا ۔ چترال میں گولن گول منصوبہ 4 فروری2018 کو مکمل کیا گیا جس کی استعداد 108 میگاواٹ ہے جس سے 3.7 ارب کی آمدنی ہوگی ۔ نیلم جہلم منصوبہ 13 اپریل2018 کو مکمل کیا گیا جس کی استعداد کار 969 میگاواٹ ہے اور اس منصوبے پر 500 ارب روپے کی لاگت آئی ہے۔ انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ پانی کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کے منصوبے مکمل ہونے کے بعد 1400 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی ۔

مختصر منصوبہ جات میں ایک ملین ایکڑ فٹ گنجائش کے ڈیم بنائیں جائیں گے ، درمیانی مدتی منصوبہ جات 9 ملین ایکڑ فٹ گنجائش کے ڈیم بنائیں گے ۔طویل المدتی منصوبہ جات میں 25 ملین ایکڑ فٹ گنجائش کے ڈیم بنائیں جائیں گے ۔ تمام منصوبہ جات کی کل لاگت 5 ہزار ارب روپے ہے ۔ چیئرمین واپڈا نے کمیٹی کو بتایا کہ پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ذخائر میں اضافہ کیا جائے اور خراب پانی کودوبارہ پینے کے قابل بنایا جائے۔

بلوچستان میں پٹ فیڈر کنال اور پینے کے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت کے حوالے سے ممبر ارسا بلوچستان نے کمیٹی کوبتایا کہ پٹ فیڈر کنال کی کل لمبائی 174 کلو میٹر ہے جس میں تقریباً50 کلو میٹر صوبہ سندھ میں واقع ہے ۔ 6700 کیوسک فٹ استعداد کار ہے ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ سندھ کے محکمہ آبپاشی سے پانی فراہم نہیں کیا جارہا جس سے صوبہ بلوچستان کی عوام کو پینے کے پانی کی شدید قلت ہے ۔خصوصی سیکرٹری محکمہ آبپاشی سندھ نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبہ بلوچستان کی اونچائی زیادہ ہے اگر دریائے سندھ کی سطح زمین کوصوبہ بلوچستان کی سطح زمین کے برابر کر دیا جائے تو مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے ۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر شمیم آفریدی نے کہا کہ ملک میں پانی کی قلت کو پورا کرنے کیلئے ڈیمز بنانے ضروری ہیں ۔