خواجہ سراؤں کی تنظیم نے سال2018کے انتخابات کیلئے سفارشات پیش کر دیں

بدھ 13 جون 2018 21:17

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 جون2018ء) خواجہ سراؤں کی آل پاکستان تنظیم نے 2018کے انتخابات کیلئے سفارشات پیش کر دیں ی ۔پشاورپریس کلب میں آل پاکستان ٹرانسجنڈر الیکشن نیٹ ورک (ایپٹن) کے اوکاڑہ سے قومی اسمبلی کی امیدوار اور ایپٹن پنجاب کی نمائندہ نایاب علی اورٹرانس ایکشن کی صدر فرزانہ جان،پنجاب سے صوبائی اسمبلی کی خواجہ سرا امیدوار لبنیٰ لعل ،قمر نسیم،ندیم کشش ،نینا لعل ،تیمور کمال اور آرزو خان اوردیگرنے مشترکہ پریس کا نفرنس کرتے ہوئے 2018 کے الیکشن ملک بھرسے خواجہ سراؤں کی جانب سے سفارشات میڈیاکے سامنے پیش کردیں اس موقع پرصوبائی و قومی اسمبلیوں کے امیدوار خواجہ سرائوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ فیس صریحاً ناانصافی پر مبنی ہے،غریب اور متوسط افرادکو صوبائی اسمبلیوں کیلئے 20ہزاراورقومی اسمبلی کیلئی30ہزاردیناناممکن ہے۔

(جاری ہے)

ان کاکہناتھاکہ آل پاکستان ٹرانسجنڈر الیکشن نیٹ ورک کے قیام کامقصد خواجہ سراؤں کوقومی و سیاسی دھارے میں شامل کرنا اور الیکشن کے عمل میں ان کی شمولیت کو بطور ووٹر بہتر بنانا ہے اسمبلیوں میں خواجہ سراوں کے نمائندگی بہت اہم ہے تاکہ خواجہ سراء قانون ساز اسمبلیوں میں اپنے حقوق کی آواز خود اٹھا سکیں۔ان کاکہناتھاکہ سیاسی پارٹیوں نے خواجہ سرا ء امیدواروں اور ووٹرز کو بری طرح نظر انداز کیاجو قابل افسوس ہے ،کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی خواجہ سراوں کے حقوق کے حوالے سے نقاط کو اپنے منشور کا حصہ نہ بنا سکے۔

خواجہ سرا پاکستان کے برابر کے شہری ہیں اور سیاسی مساوات کے حق کی نمائندگی کرنے کیلئے انتخابی عمل کا حصہ بن رہے ہیں لیکن اس حوالے سے حا ئل مشکلا ت کو دور کرنے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات ناکافی ہیں،یہ سول سو سائٹی کے تمام کرداروں کی زمہ داری ہے کہ خواجہ سراوںکی سیاسی دھارے اور انتخابی عمل میں شمولیت کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں۔

پریس کانفرنس شرکاء کاکہناتھاکہ خواجہ سراوں کے حقوق کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی کے بعد خواجہ سراوں کی سیاسی دھارے میں شمولیت ناگزیر ہے۔ خواجہ سرا تمام تر مشکلات کے باوجود انتخا بی مہم میں حصہ لینے کاارادہ رکھتے ہیں لیکن حکومت کو چاہئیے کہ اس حوالے سے آسانیاں پیدا کرتے اور خواجہ سراوں کو مختص نشستوں کے ذریعے اسمبلیوں تک پہنچایا جائے۔

انتخابی مہم میں ناکامی اور کامیابی سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ خواجہ سرا انتخابی مہم کا حصہ ہیں اور خواجہ سرا اسمبلیوں میں پہنچنے اور قانون سازی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،خواجہ سرائو ں کیلئے انتخابات میں حصہ لینا کوئی آسان عمل نہیں، خواجہ سرا غربت کی لکیرکے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور انہیں انتخابی مہم کے ہر مرحلے پر نفرت آمیز رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ خواجہ سراوں کے لیے انتخابی مہم میں آسانیاں پیدا کرے تاکہ متوسط اور مظلوم طبقے کی آواز بھی قانون ساز اسمبلیوں تک پہنچ سکے۔ خواجہ سراوں کی انتخابی مہم میںشمولیت کو یقینی اور محفوظ بنانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں ہے تمام سرکاری اداروں کو اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے اور خواجہ سراوںکو بھی اس عمل میں فہم، فراست اور صبر سے کام لینا ہو گا۔ پاکستان میں خواجہ سراوں نے اپنے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں اور الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لینا بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ سول سوسائٹی تنظیمیں خواجہ سراوں کے حقوق کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیں گی۔