نٹرنیشنل ڈیسک *

پاکستان میں اقتدار کی جمہوری طور پر منتقلی جاری رہنے چاہیے، امریکہ اسلام آباد نے قبائلی علاقوں سے طالبان کو ختم کرنے کیلئے ہزاروں قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا،سول حکومت کا قیام اور اقتدار کی جمہوری طریقے سے منتقلی عظیم کامیابی اس عمل کو بدستور جاری دیکھنا چاہتے ہیں،پاکستان کیساتھ طالبان کیخلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات کرنے پر بات چیت جاری ہے،ایلس ویلز اسلام آباد میں سولین اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں،حکومت صحافی برادری کو ملکی ترقی سے متعلق رپورٹس جاری کرنے کی اجازت دے،پناہ گزینوں،نارکوٹکس اور سرحدی انتظامات کے بارے میں تحفظات ہیں،پاکستانی قیادت کیساتھ روابط کا مقصد ساتھ مل کر کام کو بڑھاناہے ،امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں سربراہ برائے جنوبی ایشیائی امور کی میڈیا سے بات چیت

ہفتہ 7 جولائی 2018 15:20

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 07 جولائی2018ء) امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں جنوبی ایشائی امور کے سربراہ ایلس ویلز نے کہا ہے کہ پاکستان میں سول حکومت کا قیام اور اقتدار کی جمہوری طریقے سے منتقلی ملک کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک ہے،واشنگٹن اس کامیابی کے عمل کو جاری دیکھنا چاہتا ہے،پاکستان کیساتھ طالبان کیخلاف موثر اور فیصلہ کن اقدامات کرنے پر بات چیت جاری ہے،اسلام آباد میں سولین اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں،حکومت صحافی برادری کو ملکی ترقی سے متعلق رپورٹس جاری کرنے کی اجازت دے،قبائلی علاقوں سے پاکستانی طالبان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے ہزاروں قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا،ہمیں پناہ گزینوں،نارکوٹکس اور سرحدی انتظامات کے بارے میں تحفظات ہیں،پاکستانی قیادت کیساتھ روابط کا مقصد ساتھ مل کر کام کو بڑھاناہے ۔

(جاری ہے)

ہفتہ کو امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں سربراہ برائے جنوبی ایشیائی امور ایلس ویلز نے دارالحکومت واشنگٹن میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کیساتھ طالبان کیخلاف ’ موثر اور فیصلہ کن‘ اقدامات کرنے اور افغان مذاکراتی عمل میں شمولیت کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے معاملے پر بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ پاکستان میں سول حکومت کا قیام اور اقتدار کی جمہوری منقلی پاکستان کی بڑی کامیابی میں سے ایک ہے اور ہم اسے جاری دیکھنا چاہتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سولین اداروں کی مضبوطی چاہتے ہیں، اور یہ اس رگ کی طرح ہیں کہ جب ہم پاکستانی قیادت سے رابطہ کرتے ہیں تو ہم اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ جب ہمارے پاس شواہد ہوتے ہیں یا پھر ایسے اشارے موجود ہوتے ہیں کہ سول سوسائٹی اور میڈیا مکمل آزادی کے ساتھ یا بغیر کسی دباؤ کے شرکت نہیں کر رہا، کیونکہ یہ بالاخر اس سے روک دے گا جو پاکستان میں ایک کامیاب کہانی ہونی چاہیے‘۔

اس موقع پر ایلس ویلز نے پاکستانی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ہر فرد کو اپنے خیالات کو جمع کرنے اور پر امن طریقے سے ان کا اظہار کرنے کی اجازت دے،ساتھ ہی صحافیوں کو’مکمل طور پر ملکی ترقی کے لیے رپورٹ‘ کرنے کی اجازت دے،پاکستان کے پاس افغان مذاکراتی عمل سے متعلق مواقع موجود ہیں،وہ سرحد پار دہشتگردی اور افغان حدود سے چلنے والے دہشتگرد گرہوں سے متعلق تحفظات دور کرسکے۔

اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات قائم رکھنے کی خواہش کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے ساتھ بات چیت جاری ہے اور ہم اس چیز کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں طالبان قیادت کیخلاف’موثر اور فیصلہ کن‘ اقدامات کریں،بے دخل کریں،گرفتار کریں یا انہیں مذاکرات کی میز پر لائیں۔افغان قیادت کی پاکستان میں موجودگی کے امریکی دعویٰ کو دہراتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ’ یہ بالکل واضح ہے کہ ایک باہمی سیاسی مذاکرات کے لیے ایک مستقل رکاوٹ طالبان کی قیادت ہے اور ان میں سے بہت سے افغانستان سے باہر ہیں، جس کیوجہ سے معاونت اور افغان قومی سلامتی فورسز کے دباؤ سے باہر ہیں‘۔

امریکی حکام نے اسلام آباد کو یاد دہانی کرائی کے پاکستان کے پاس افغان مذاکراتی عمل میں مواقع موجود ہیں کہ وہ سرحد پار دہشتگردی اور افغان حدود سے چلنے والے دہشتگرد گرہوں سے متعلق تحفظات دور کرسکے۔اس موقع پر انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’قبائلی علاقوں سے پاکستانی طالبان کو ختم کرنے کے لیے پاکستان نے ہزاروں قربانیوں کا نذرانہ پیش کیا‘۔انہوں نے کہا کہ ’انہیں پناہ گزینوں، نارکوٹکس اور سرحدی انتظامات کے بارے میں تحفظات ہیں اور ان تمام مسائل کو مذاکرات کے تناظر میں لیا جاسکتا ہے‘۔ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ’ میرے پاکستانی قیادت کے ساتھ روابط کا مقصد ہے کہ ساتھ کام کو بڑھانا اور جنوبی ایشیائی حکمت عملی پیش کرنے کے مواقع دیکھنا ہے۔