اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اورکیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا معطل کردی، ضمانت پر رہا کرنے کا حکم

سزا معطلی سے متعلق درخواست گزاروں کی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں جس کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی، محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں، سزائیں اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں پر فیصلہ نہیں سنا دیا جاتا، عدالت نے مختصر تحریری فیصلہ جاری کر دیا

بدھ 19 ستمبر 2018 20:25

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اورکیپٹن ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 ستمبر2018ء) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور سابق ممبر قومی اسمبلی کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں دی گئی سزا معطل کرتے ہوئے اٴْنہیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ بدھ کو عدالت عالیہ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سزا معطلی کیلئے دائر درخواستوں کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نیب اکرم قریشی نے اپنے دلائل مکمل کیے تو محمد نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مختصر جوابی دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔کچھ ہی دیر بعد جسٹس اطہر من اللہ نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو احتساب عدالت کی جانب سے سنائی جانے والی سزائیں معطل کردیں اور انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔

(جاری ہے)

عدالت نے مختصر تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ سزا معطلی سے متعلق درخواست گزاروں کی اپیلیں منظور کی جاتی ہیں، اپیلوں پر حتمی فیصلے تک احتساب عدالت کی سزائیں معطل کی جاتی ہیں جس کی وجوہات بعد میں تفصیلی فیصلے میں دی جائیں گی۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر پانچ پانچ لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرائیں، درخواست گزاروں کی درخواستوں پر تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

تینوں ملزمان کی سزائیں اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیلوں پر فیصلہ نہیں سنا دیا جاتا۔ واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر نے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں محمد نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے، مریم نواز کو 7 سال قید اور جرمانے اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سماعت کے موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں مخصوص حالات یہ ہیں کہ گلف اسٹیل ملز 1978 میں فروخت کی گئی، مجرمان کے مطابق طارق شفیع اور عبداللہ قائد آہلی کے درمیان فروخت کا معاہدہ ہوا اور یہ موقف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں میں اپنایا گیا تھا۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا مجرمان کہتے ہیں کہ 1980 میں مزید 25 فیصد شیئرز فروخت ہوئے اور فروخت سے حاصل 12 ملین درہم قطری شہزادے کے پاس سرمایہ کاری میں استعمال ہوئے اور اسی سے ایون فیلڈ پراپرٹیز خریدی گئیں۔

مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم کی بنیاد یہی 12 ملین درہم ہیں۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ فروخت کا معاہدہ جعلی ہے اور ایسا کوئی ریکارڈ دبئی کے ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہے۔نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ دبئی کی حکومت نے بتایا 25 فیصد شیئرز کی فروخت کا معاہدہ ان کے پاس نہیں ہے۔ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل کے دوران کہا کہ مریم نواز کی طرف سے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست کے ذریعے ایک موقف لیا گیا اور انہوں نے سپریم کورٹ میں سی ایم اے نمبر 7531 کے ذریعے دستاویزات جمع کرائیں جس میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات کا ذکر کیا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نیب پراسیکوٹر سے مکالمہ کیا کہ آپ جے آئی ٹی نہیں، جے آئی ٹی اور نیب میں بہت فرق ہے۔ نیب پراسیکوٹر اکرم قریشی نے کہا ہمارے پاس بھی یہی موقف اپنایا گیا کہ لندن فلیٹس کی رقم گلف اسٹیل ملز سے آئی۔ جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا ہمارے پاس کا کیا مطلب، مجرمان تو پیش ہی نہیں ہوئے۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے کہا مریم نواز کی ملکیت چھپانے کے لیے جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنائی گئی۔

جس پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا آپ کہتے ہیں کہ نواز شریف نے مریم کے نام پر فلیٹس بنائے۔ جس پر انہوں نے جواب دیا جی ہاں، نواز شریف فلیٹس کے اصل مالک تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ تفتیش سے نواز شریف کا تعلق نہیں جوڑ سکے تو ہم فرض کیسے کرلیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پھر نواز شریف کی ملکیت کا کوئی ثبوت بتا دیں، ہم کیسے فرض کریں، آپ کی اتنی بڑی تفتیش کے بعد نواز شریف کا فلیٹس سے تعلق نہیں بن پا رہا، نواز شریف تو کہیں بھی نظر نہیں آرہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا 2012 تک مریم نواز ان فلیٹس کی بینفشل اونر تھیں اور بعد میں ایک جعلی ٹرسٹ ڈیڈ بنا کر ٹرسٹی بنیں، اس ٹرسٹ ڈیڈ میں کیلیبری فونٹ کا استعمال ہوا جو ان دنوں دستیاب ہی نہیں تھا اور ٹرسٹ ڈیڈ میں تاریخیں بھی بدلی گئیں۔اس موقع پر جسٹس میاں گل حسن نے سوال کیا فرض کریں مریم نے جعلی دستاویزات پیش کیں، یہ بتائیں ذرائع سے زیادہ آمدن پر سزا کیسے ہوسکتی ہے۔

نیب پراسیکوٹر نے کہا کہ سب سوال مجھ سے پوچھنے ہیں، کوئی سوال اٴْدھر سے بھی پوچھ لیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ 1993 میں مریم نواز کی عمر کیا تھی جس پر اکرم قریشی نے بتایا اس وقت مریم نواز 20 سال کی تھیں۔عدالت نے سوال کیا کہ آپ کا موقف ہے کہ 1993 میں نواز شریف نے لندن فلیٹس خریدے تو مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس کیسے بن گیا، آپ کا کیس ہے کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ مالک مریم نواز نہیں بلکہ نواز شریف ہیں، یہ میں نہیں کہتا یہ قانون کہتا ہے۔عدالت نے سوال کیا آپ یہ کہتے ہیں ان بچوں کے دادا کا وہاں کوئی کاروبار نہیں تھا۔ جس پر اکرم قریشی نے کہا یہ ان کا موقف ہے کہ طارق شفیع ان کے دادا کا کاروبار سنبھال رہے تھے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی ایسا ریکارڈر دیں جو نواز شریف کا کسی بھی حثیت میں کردار ثابت کرتا ہو، کیا صرف مفروضے کی بنیاد پر سزا ہوسکتی ہے۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا قانون شہادت تو ایسا کرنے کا کہتا ہے، میں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی بتایا ہے۔ اکرم قریشی نے کہا قانون شہادت کے اصول عام مقدمات میں مختلف جبکہ اس کیس میں مختلف ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا سپریم کورٹ کے طے کردہ اصول کے مطابق نیب کو تفصیلی تفتیش کرنا تھی، ان کے معلوم ذرائع آمدن کہاں پر تفتیش کیے، وہ دستاویزات کون سی ہیں۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا سپریم کورٹ کا قانون یہاں قابل عمل نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا لاء قابل عمل نہیں ہے، معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کہاں پر ہے، کیا میں یہ لکھ دوں کہ اس کیس میں سپریم کورٹ لاء کا اطلاق نہیں ہوتا۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی لکھ دیں اس کیس میں سپریم کورٹ لاء کا اطلاق نہیں ہوتا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ آپ کہتے ہیں جائیدادیں بیرون ملک ہیں، اس لیے بار ثبوت نیب پر نہیں آتا۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جی بالکل ایسا ہی ہے، بار ثبوت نیب پر نہیں آتا۔ فاضل جج نے سوال کیا کہ اس طرح کی ایکسرسائز کسی عوامی عہدیدار کے کیس میں کی گئی ہم صدور اور وزراء اعظم سے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا حاکم علی زرداری اور احمد ریاض شیخ کے مقدمات میں ایسا ہی کیا گیا اور دونوں کے مقدمات میں بار ثبوت ملزمان پر تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، اس میں رائج اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے مختصر دلائل کی استدعا کی اور کہا کہ مریم نواز کی پیش کردہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی قرار دی گئی جو کہیں رجسٹرڈ نہیں ہے اور یہ ٹرسٹ ڈیڈ انہوں نے خود پیش کی جب کہ جے آئی ٹی کو خاص کردار دیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل سے سوال کیا آپ اکرم قریشی کی حمایت کرتے ہیں کہ یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے، اس میں رائج اصولوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔جس پر جہانزیب بھروانہ نے کہا جی یہ فرسٹ امپریشن کا کیس ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا معلوم ذرائع آمدن کا چارٹ کس نے تیار کیا تھا، اسے بنانے والا کہاں پر ہے، اگر وہ آتا تو اس پر جرح ہوتی کہ کیسے بنایا گیا۔

جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے، یہ کیس نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کے ذریعے لڑا جارہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا مریم نواز کی معاونت تو تب ہوتی جب جائیداد خریداری میں کوئی کردار ہوتا۔ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا جائیداد کی قیمت لازمی شرائط نہیں، فلیٹس موجود ہیں، پرتعیش لائف اسٹائل سامنے ہے اور میڈیا انٹرویوز بھی موجود ہیں۔

پراسیکیوٹر نیب کے دلائل مکمل ہونے پر خواجہ حارث نے مختصر جوابی دلائل دیے جس کے بعد عدالت نے سزا معطلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا اور تین بجے سنایا۔ واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے 13 جولائی کو لندن سے واپس پاکستان آکر گرفتاری دی تھی۔ بعدازاں تینوں نے سزائوں کے خلاف 16 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستیں دائر کیں۔