سپریم کورٹ نے سندھ کے علاقہ تھر میں بچوں کی ہلاکت سے متعلق ازخود نوٹس کیس میںسیکرٹری صحت سندھ کی رپورٹ مسترد کرد ی

منگل 9 اکتوبر 2018 21:26

سپریم کورٹ نے سندھ کے علاقہ تھر میں بچوں کی ہلاکت سے متعلق ازخود نوٹس ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اکتوبر2018ء) سپریم کورٹ نے سندھ کے علاقہ تھر میں بچوں کی ہلاکت سے متعلق ازخود نوٹس کیس میںسیکرٹری صحت سندھ کی رپورٹ ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے مسترد کرد ی ہے اور اٹارنی جنرل سے تحریری جواب طلب کر تے ہوئے چیف سیکریٹری سندھ اور دیگر متعلقہ حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔ منگل کوچیف جسٹس میا ں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پرسیکرٹری صحت سندھ نے پیش ہوکرعدالت کو بتایا کہ رواں سال تھرمیں کل 486 بچوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں مٹھی کے علاقہ میں ہوئی ہیں، جن میںمیں زیادہ تعداد نوزائیدہ بچوں کی تھی،جس کی بڑی وجہ وہا ں پر مائوں میں غذائیت کی کمی بتائی گئی ہے ، اس کے ساتھ بچوں کی پیدائش میں کم وقفہ بھی ایک وجہ ہے، انہو ں نے بتایا کہ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز صرف 40 فیصد علاقے کو کور کرتی ہیں، جن علاقوں میں کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں وہاں پر اموات کم ہوتی ہیں اور وہا ں پر مائوں کی صحت بھی قدرے بہترہوتی ہے، سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت سے کہا کہ عدالت کوبتایا جائے کہ اس معاملے سے متعلق آپ نے اب تک کیا کیا ،کونسے اقدمات اٹھائے گئے ہیں ،یہ بھی بتادیں کہ تھر میں کتنے عرصے سے ہلاکتیں ہو رہی ہیں اوراس کی روک تھام کیوں نہ ہوسکی ۔

(جاری ہے)

جس پرسیکرٹری صحت نے بتایا کہ گزشتہ 4 سال سے بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ توچیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے کہا کہ اتنے عرصے سے یہ مسئلہ موجودہے، ا س کوحل کیوں نہیں کیا جارہا ، توایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کوبتایا کہ اس معاملے پر عدالت میں رپورٹ جمع کر ادی گئی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کوصرف رپورٹ نہیں بلکہ اس صورتحال کاحل چاہیے ،آپ نے وہاں جو گندم بھجوائی تھی اس میں بھی ریت نکلی، میں خود تھرجائوں گا، بتایا جائے کہ کس دن آجائوں، میں اپنے لوگوں کو مرنے نہیں دوں گا، آج وہا ں جو حالات ہیں وہ کس کی ذمہ داری ہے وہاں خوراک پانی کی فراہمی کس کی ذمہ داری ہے ، ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وہا ں بچو ں کی کیا ضروریات ہیں یہ صوبے کی ذمہ داری ہے کہ پسماندہ علاقہ کے لوگوں کا خیال رکھے اوران کی بنیادی ضروریات کویقینی بنائے ۔

سماعت کے دوران رکن قومی اسمبلی رمیشن کمار نے تھر میں بدترین حالات کی وجہ سرکاری سطح پر کرپشن کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ میں 450 کروڑ روپے کی لاگت سے کوئلے سے بجلی بنانے کا منصوبہ ناکام ہوا ہے، اربوں روپے لگانے اور افتتاح کے باوجود تھر کول پلانٹ بندپڑا ہے، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ چیف سیکرٹری اس معاملے کے حوالے سے پالیسی بنا کر لائیں، اورہمیںبتائیں کہ درپیش مسائل کا حل کیسے نکل سکتا ہے، تھر میں خوراک اور پانی کے ٹرک ہنگامی بنیادوں پر بھجوائے جائیں۔

چیف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ کی رپورٹ کے حوالے سے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ بتایا جائے کہ عدالت اس ضمن میںکیا اقدامات لے سکتی ہے۔ تواٹارنی جنرل نے بتایا کہ ان علاقوں میں ہسپتال موجود ہیں مگر ڈاکٹرز نہیں، مشینیں ہیں لیکن ان کوچلانے کیلئے آپریٹرز نہیں، جو ڈاکٹر وہاں جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ اسے سزا ملی، جس کے بعد د وہ مریضوں کو سزا دیتا ہے۔بعدازاں چیف جسٹس نے صوبائی حکومت کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے تجاویزما نگ لیں اورکہا کہ اس مسئلے کوہنگامی بنیادوں پرحل کرنے کی ضرورت ہے بعدازاں عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ اور دیگر متعلقہ حکام کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔