جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری

93 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا پبلک فورم پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی، اداروں پر الزام تراشی ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے، شوکت صدیقی سے اپنی رہائش گاہ پر فوجی افسران سے ملنے،فوجی افسران کو عدالتی امور پر بات کرنے کی اجازت دینے، فوجی افسران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنے،معاملہ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو اعتماد میں نہ لینے سے متعلق سوال اٹھائے گئے شوکت صدیقی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعلق معلومات آئی ایس آئی نے دیں جو غیر تصدیق شدہ تھیں ،شوکت صدیقی کو اس طرح کی معلومات پر انحصار کرنے میں محتاط رہنا چاہیے تھا،فیصلے کا متن

جمعہ 12 اکتوبر 2018 18:06

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اکتوبر2018ء) سپریم جوڈیشل کونسل نے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،3 9 صفحات پر مشتمل تحریری وجوہات جسٹس آصف سعید نے تحریر کیں ۔جسٹس آصف سعید کی طرف سے لکھی گئی وجوہات میں درج کیا گیا ہے کہ جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف آنے والی شکایت درست ثابت ہوئیں ۔

جسٹس شوکت صدیقی کو آئین کے ارٹیکل 209 کے تحت ملازمت سے خارج کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔شوکت عزیز صدیقی نے اپنے جواب میں سپریم جوڈیشل کونسل کو بتایا کہ میرے خلاف شکایت کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔بار کو اعتماد میں لینا میری ذمہ داری تھی۔کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کا جواب قانون کے مطابق نہ ہونے پر مسترد کرتے ہوئے جسٹس شوکت کی جانب سے اداروں پر الزام تراشی ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

(جاری ہے)

ایک جج کو دیگر ججز اور انکے فیصلوں سے متعلق محتاط ریمارکس دینے چاہئیں، شوکت صدیقی نے سابق چیف جسٹس صاحبان اور انکے فیصلوں سے متعلق جو کہا وہ انکی زاتی رائے ہے،اس طرح سے تضحیک امیر انداز میں شوکت صدیقی کو پبلک فورم پر بات نہیں کرنی چاہیے تھی،شوکت صدیقی اپنے تحریری جوابات میں الزامات کو ثابت کرنے کیلئے مواد دینے میں ناکام رہے،ملک کے سیاسی اور آئینی امور سے متعلق عدالتی فیصلوں پر رائے زنی کرنا جج کیلئے شجر ممنوعہ ہے،مردہ یا زندہ ججوں سے متعلق تضحیک آمیز الفاظ کا استعمال جج کیلئے شیان شان نہیں، شوکت صدیقی نے ابتدائی جواب میں بھی تفصیل فراہم نہیں کی لیکن بعد میں بریگیڈیئر عرفان رامے اور میجر جنرل فیض حمید کا نام لیا،شوکت صدیقی نے کہا کہ بریگیڈیئر عرفان رامے اور میجر فیض حمید نے چیمبر میں ملاقات کی،شوکت صدیقی نے جواب میں فیض آباددھرنا، بول ایگزٹ گروپ کے مقدمات میں کچھ افراد کے اثر انداز ہونے کا الزام لگایا،جس کے ثبوت پیش کرنے میں وہ ناکام رہے،ایسا جج جو ایجنسیوں کی طاقت سے خوف زدہ ہو تو اس پہلو سے سوالات اٹھتے ہیں، کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کی ایجنسیوں کے افسران سے ملاقات پر پانچ مختلف سوالات اٹھا ئے ہیں جن میںشوکت صدیقی کو اپنی رہائش گاہ پر فوجی افسران سے ملنے،فوجی افسران کو عدالتی امور پر بات کرنے کی اجازت دینے، فوجی افسران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی نہ کرنے،معاملہ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور چیف جسٹس آف پاکستان کو اعتماد میں نہ لینے سے متعلق سوال اٹھائے گئے ۔

جسٹس آصف سعیدنے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی معزولی کی وجوہات میں تحریر کیا کہ شوکت صدیقی کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ سے متعلق معلومات آئی ایس آئی نے دی،شوکت صدیقی کو اس طرح کی معلومات پر انحصار کرنے میں محتاط رہنا چاہیے تھا،یہ معلومات غیر تصدیق شدہ تھی،کونسل نے شوکت صدیقی کو عوام میں جانے کا فیصلہ کو ان کی معزولی کی وجوہات قرار دیا ہے ۔۔۔۔توصیف