Live Updates

وزیر خزانہ کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو گمراہ کہنے پر اپوزیشن کا احتجاج ،ْ ایوان سے واک آئوٹ

میرے والد 1971 میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے اور چھمب جوڑیاں میں تعینات تھے ،ْمولانا فضل الرحمن کو کسی نے غلط خبر دی اور گمراہ کیا ،ْوزیر خزانہ مولانا فضل الرحمان ایوان کے ایک قابل احترام رکن رہے ہیں ان کی شان میں گستاخی کی ضرورت نہیں ،ْوزیرخزانہ جانب سے الفاظ واپس لیتا ہوں ،ْ شاہ محمود قریشی خورشید شاہ نے کہا کہ ہم صرف وزیر خزانہ کا بھاشن سننے نہیں آئے، وزیر خزانہ نے بھاشن دیا اور چلے گئے ،ْمولانا فضل الرحمن بارے ریماکس کی مذمت کرتے ہیں ،ْخورشید شاہ

منگل 30 اکتوبر 2018 18:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 اکتوبر2018ء) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو گمراہ کہنے پر اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے قومی اسمبلی سے واک آؤٹ کیا۔ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک کی معاشی صورت حال پر گفتگو کی گئی ۔وزیر خزانہ اسد عمر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو کسی نے کوئی غلط خبر دی اور میرے والد صاحب کے بارے میں گمراہ کیا ہے، میرے والد نے جھنگ پر قبضہ کیا آج بھی تاریخ گواہ ہے، میرے والد 1971 میں جنرل آفیسر کمانڈنگ تھے اور چھمب جوڑیاں میں تعینات تھے، انہوں نے چھمب جوڑیاں پر قبضہ کیا جو آج بھی پاکستان کے پاس ہے، فوج کے سرینڈر سے میرے والد کا کوئی تعلق نہیں تھا، جنرل نیازی کا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں، وہ میانوالی سے ضرور تھے لیکن عمران خان کا ان سے کوئی رشتہ نہیں۔

(جاری ہے)

اسد عمر اظہار خیال کرکے ایوان سے چلے گئے، تاہم جے یو آئی ف کے اراکین نے اسد عمر کے الفاظ پر ایوان میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے گئے۔اس موقع وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اس ایوان کے ایک قابل احترام رکن رہے ہیں ان کی شان میں گستاخی کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گمراہ کے لفظ سے اگر جمعیت علماء اسلام (ف) کی دل آزاری ہوئی تو میں وزیر خزانہ کی جانب سے یہ الفاظ واپس لیتا ہوں تاہم مولانا فضل الرحمان کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔

مولانا عبدالواسع نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے گئے۔ وہ ملت اسلامیہ کے قائد اور لاکھوں علماء کے سربراہ ہیں۔ اس کی جو معذرت یا وضاحت وزیر خارجہ نے کی اس سے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ اس دوران ایوان کے دونوں طرف ارکان کھڑے ہوکر بولنے شروع ہوگئے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں حکومت کی طرف سے جو بات کی گئی پوری اپوزیشن اس کی مذمت کرتی ہے۔

حکومت کی طرف سے اس قسم کے الفاظ اچھی روایت نہیں ہے۔ایوان میں اہم صورتحال پر بحث چل رہی تھی۔ حکومت نے اس پر کورم پورا کیا۔ وہ اس صورتحال پر بحث کرنا چاہتی تھی کہ کس طرح معاشی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے کہا کہ وزیر خزانہ یہاں موجود نہیں ان کو بلایا جائے۔ شیریں مزاری نے کہا کہ آج وزیر خزانہ انہیں یاد آرہا ہے یہ گزشتہ پانچ سال ان کو یاد نہیں آیا۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ہم صرف وزیر خزانہ کا بھاشن سننے نہیں آئے، وزیر خزانہ نے بھاشن دیا اور چلے گئے، بات کر کے چلا ہی جانا تھا اس ایشو پر بحث کیا ضرورت تھی، ان کے پاس اتنا ٹائم نہیں کہ جس کی وجہ سے وزیر بنے اس ادارے کو ٹائم نہیں دے رہے، اسد عمر کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کے بارے میں گمراہ کا لفظ استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔خورشید شاہ نے کہا کہ جب تک وزیر خزانہ نہیں آتے ہم بحث میں حصہ نہیں لیں گے۔

اس کے ساتھ ہی اپوزیشن نے واک آئوٹ کردیا۔ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کے بائیکاٹ کے بعد وہ اپوزیشن کی لابی میں گئے تاہم وہاں پر صرف دو اراکین موجود تھے‘ باقی سارے اراکین جا چکے ہیں۔ ہائوس بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں بڑے اچھے جذبے کے ساتھ حکومت اور اپوزیشن نے مل کر فیصلہ کیا تھا کہ ملکی معاشی صورتحال پر بحث ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس ایوان کا فائدہ یہ ہے کہ قوم کو یہاں سے روشنی ملے۔ قوم آج دیکھ رہی ہے کہ معمولی باتوں پر بائیکاٹ ہو رہے ہیں۔ توقع ہے اپوزیشن بدھ کو ایوان میں آئے گی۔ وزیر خزانہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایوان میں موجود نہیں تھے تاہم وزیر مملکت حماد اظہر یہاں موجود تھے اور وہ نوٹس لے رہے تھے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے آغا حسن بلوچ نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے ملک کی اقتصادیات پر زیادہ توجہ نہیں دی جس کے باعث ملک معاشی بحران کا شکار ہے۔

حکومت اس حوالے سے بہترین کاوشیں کر رہی ہے۔ سابق حکومتوں نے چھوٹے صوبوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ضروری اقدامات نہیں کئے۔ معاشی مسائل کے حل کے لئے ایوان کی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ ہمیں عوامی مفاد میں قانون سازی کرنی چاہیے۔ صابر حسین قائم خانی نے کہا کہ ہم مشاورت سے اقتصادی صورتحال کو بہتر کر سکتے ہیں۔ اقتصادی صورتحال میں بہتری کے لئے بنیادی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں زرعی شعبہ میں خودکفالت اور صنعتوں کی ترقی کے لئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ ڈاکٹر شہناز نصیر بلوچ نے کہا کہ ملکی معیشت میں زرعی شعبہ کا اہم کردار ہے۔ طویل مدتی منصوبہ بندی سے معاشی مسائل حل کئے جائیں۔ عاصمہ قدیر نے کہا کہ امن و سلامتی کے لئے پوری دنیا کی نظریں پاکستان پر لگی ہیں۔ ہمیں امت مسلمہ کے تحفظ کے لئے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔

محمد ہاشم نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں کی پالیسیوں کی بدولت ملکی معیشت بدحالی کا شکار ہوئی۔ ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ ملک کے معدنی وسائل کے درست استعمال کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ ہمیں وعدہ کرنا ہوگا کہ ملک سے کرپشن ختم کریں گے۔ کرپشن ختم ہونے سے معیشت مستحکم ہوگی۔ سعودی عرب‘ چین اور متحدہ عرب امارات نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کی مدد کی۔ منورہ منیر نے کہا کہ بلوچستان کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے۔ بلوچستان کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ بلوچستان میں زرعی ترقی سے ملکی معیشت مستحکم ہوگی۔بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) بدھ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردیا گیا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات