سندھ مدرسہ یونیورسٹی میں تعلیمی ماہرین کا اجلاس،’’اسکول ایجوکیشن کمیشن ‘‘قائم کرنے کی تجویز کی حمایت

بدھ 7 نومبر 2018 17:48

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 نومبر2018ء) سندھ کے تعلیمی ماہرین نے صوبے میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے اسکول ایجوکیشن کمیشن قائم کرنے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ میں اس طرح کے کمیشن قائم کرنے سے پرائمری سے لیکر انٹرمیڈیٹ تک تین حصوں میں بٹے ہوئے تعلیمی نظام ایک ہی کمیشن کے ماتحت کم کرکے بہتر نتائج دے سکتا ہے۔

بدھ کے روز سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں منعقد ہونے والے اس اجلاس میں سندھ کے تعلیمی ماہرین نے سندھ اسکول ایجوکیشن کمیشن قائم کرنے کی تجویز پر تفصیلی بحث و مباحثہ کیا۔ تعلیمی ماہرین نے اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے سندھ حکومت سے گذارش کی ہے کہ وہ اسکول ایجوکیشن کمیشن قائم کرنے کیلئے اقدامات کرے۔

(جاری ہے)

یہ تجویز سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے ادارے سینٹر فار پبلک پالیسی آن ایجوکیشن کے چاررکنی ریسرچ اسکالرز ڈاکٹر محمد علی شیخ (سربراہ) ڈاکٹر اسٹیفن جان، ڈاکٹررخشندہ کوکب اور ڈاکٹر منیر موسی نے پیش کی ہے۔

جس میں انہوں نے سندھ حکومت کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ صوبے میں تعلیم کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے ایک کمیشن قائم کیا جائے۔جو کہ پرائمری سے لیکر انٹرمیڈیٹ تک کے معاملات کی دیکھ بھال کرے ۔اس موقع پر شرکاکو پریزینٹیشن دیتے ہوئے سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمدعلی شیخ جو کہ کمیشن کی تجویز پیش کرنے والی کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ سندھ ایجوکیشن کمیشن کا اہم مقصد سندھ کی پرائمری اور انٹرمیڈیٹ کی تعلیمی صورتحال ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ ، کریکیولیم ڈولپمینٹ بیورو اور دیگر اداروں کو بہتر بنانا ہے۔

سندھ حکومت کو تجویز پیش کی ہے کہ صوبے میں پرائمری اورانٹرمیڈیٹ تک معیار تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرز پر اسکول ایجوکیشن کمیشن قائم کرکے تمام امتحانی بورڈز ، سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ، کریکیولم ڈیولپمینٹ بیورو اور دیگر مطلقہ اداروں کو اس کمیشن کے ماتحت کیا جائے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے سینیٹ ہال میں میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

یہ تجویز سندھ مدرسہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی سربراہی میں قائم چار رکنی ریسرچ تھنک ٹینک نے تحقیق کے تیار کی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت محکمہ تعلیم کے امور سندھ حکومت کے تین شعبے چلا رہے ہیں۔ ان میں سے ایک اسکول ایجوکیشن، دوسرا کالج اور تیسرا جامعات کا نظام چلارہے ہیں۔ان کا نظام تین علیحدہ علیحدہ سیکریٹریز اورجنرل کیڈر کے افیسرز کے ذریعے چلایا جارہا ہے، جن کے معمول کے تبادلوں اور دیگر محکموں سے لوگوں کی تعیناتی کے باعث عوام تک بہتر نتائج نہیں پہنچتے۔

وائس چانسلر سندھ مدرسہ یونیورسٹی نے کہا کہ حکومتی مسائل کی وجہ سے آج تعلیم کا نظام تباہ حال ہے، تعلیمی نظام چلانے والے تمام محکمے بغیر کسی ذہنی ہم آہنگی اور کوآرڈینیشن کے اپنا نظام چلارہے ہیں۔ ڈاکٹر محمد علی شیخ نے کہا کہ اس کمیشن کا سربراہ چیئرمین کو ہونا چاہئے جس کی تعلیم پی ایچ ڈی ہو۔ جس کے پاس تعلیم کے میدان میں کام کرنے کا بے حد تجربہ ہو جبکہ وزیراعلی اس کمیشن کا سربراہ ہوگا۔

کمیشن کے ماتحت مختلف ذیلی ادارے قائم کیے جائیں ، جن میں اساتذہ کی سلیکشن، کیپسٹی بلڈنگ اینڈ ٹریننگ ، انفراسٹرکچر اینڈ فزیکل فیسلیٹیشن ، داخلوں کی استعداد کار بڑھانے ،مانیٹرنگ اینڈ ایوالیوایشن، سرکاری و نجی اور مدرسہ ایجوکیشن کی ونگز قائم کی جائیں۔ وائس چانسلر ایس ایم آئی یو نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اسکولز کی مینجمنٹ مقامی حکومتوں کے حوالے کی جائے جبکہ کمیشن تعلیم کے اہم اداروں میں صرف سہولت کار کا کردار ادا کرے۔

اس نئے مینجمنٹ سسٹم سے صوبے کے طالبعلموں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچے گاکیوں کہ 52 فیصد طالبعلم اسکولوں سے باہر ہیں جو کہ کے پی کے اور پنجاب سے بھی زیادہ تعداد ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ڈھاکہ کے بعد سندھ کی تعلیم بہتر سمجھی جاتی تھی مگرآج کے دور میں سندھ کی تعلیمی صورتحال اس قدر بہتر نہیں ہے۔ اس لیے اس میں بہتری کی اشد ضرورت ہے۔کسی بھی قوم کی تعمیر میںمعیاری تعلیم کا کردار ہوتا ہے۔ ہمیں بلاتاخیر تعلیمی نظام میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔