سندھ کابینہ نے سماجی برائیوں پر قابو پانے کے لئے بچوں کی گداگری پر پابندی عائد کردی

منگل 13 نومبر 2018 23:53

کراچی۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 نومبر2018ء) سندھ کابینہ نے بڑی سماجی برائیوں پر قابو پانے کے لئے بچوں کی گداگری پر پابندی عائد کردی ہے اور محکمہ سماجی بہبود کو ہدایت کی ہے کہ وہ سگنل اور گلیوں سے بچوں کو اٹھا کر انہیں اپنے ویلفیئر مراکز میں رکھیں۔ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے منگل کو نیو سندھ سیکریٹریٹ میں سندھ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی۔

جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں تمام صوبائی وزرا نے شرکت کی، صوبائی مشیروں اور معاونین خصوصی کو خاص طورپر اجلاس میں مدعو کیا گیا تھا۔ چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ نے اجلاس کی کارروائی کا آغاز کیا۔ اجلاس میں گندم کی فصل 2018 ء کی قیمت مقرر کرنے سے متعلق رپورٹ،گدا گری پر موجودہ قانونی پوزیشن کی رپورٹ، نئے کیپیٹیو پاور پلانٹس پر ٹیرف کے فرق کی سبسڈی، سیہون ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی گورننگ باڈی کی تشکیل، سندھ زکوة اینڈ عشر ایکٹ میں ترمیم، صوبائی کابینہ کے مالی امور سے متعلق اختیارات پر بھی غور کیا گیا ۔

(جاری ہے)

کابینہ میں پانی کی صورتحال پر پریزنٹیشن بطور ایک اضافی آئٹم کے غور کے لئے پیش کیاگیا ۔ صوبائی مشیر برائے قانون و اطلاعات مرتضی وہاب نے کابینہ کی جانب سے 3 ستمبر 2018 ء کو گداگری کے مسئلے پر تشکیل دی گئی اپنی کمیٹی کی سفارشات پیش کیں۔ کمیٹی کے دیگر اراکین میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو اور صوبائی وزیر سماجی بہبود ہری رام تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے حوالے سے کافی قوانین دستیاب ہیں۔ مغربی پاکستان ویگرینسی آرڈیننس 158 کی دفعہ 7 کے تحت گداگری پر پابندی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ گداگری بچوں سے کرائی جاتی ہے جو کہ براہ راست یا بلواسطہ طور پر گداگری کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور یہ چند خواتین یا مرد حضرات جو کہ خود کو بچوں کا کسٹوڈین ظاہر کرتے ہیں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

یہ سندھ چائلڈ ایکٹ 1955 ایکٹ کی دفعہ 49 کی خلاف ورزی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ 2011 ء میں سندھ اسمبلی نے سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ ۔2011 پاس کیاتھا، جس میں بچوں کے حقوق کو یقینی بنایا گیا تھا اور ان کے حوالے سے خصوصی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے سندھ کابینہ کی مشاورت سے صوبہ بھر میں گداگری پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلے مرحلے میں گداگری کیلئے استعمال ہونے والے بچوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی ہے۔

انہوں نے محکمہ سماجی بہبود کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کی گداگری کے حوالے سے ایک خصوصی مہم شروع کریں۔ وزیراعلی سندھ نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو ہدایت کی کہ وہ بچوں کی گداگری کے خلاف چلائے جانے والی محکمہ سماجی بہبود کی مہم کے حوالے سے مدد کریں اور بھیک مانگنے والے بچوں کو سویٹ ہوم اور اسٹریٹ چلڈرن سینٹر کورنگی بھیجا جائے جہاں پر ان کی بحالی کا کام کیاجائے گا۔

انہوں نے کہا کہ میں انہیں چھت، خوراک، کھیلوں کی سرگرمیاں اور تعلیم فراہم کرنا چاہتا ہوں تاکہ یہ ہمارے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں ۔ انہوں نے محکمہ سماجی بہبود کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کو ایک موثر ادارہ بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہیلپ لائن 1121 کی میڈیا میں لازمی طورپر تشہیر کی جائے تاکہ عام آدمی کو بچوں کے جو بھی حقوق ہیں اس حوالے سے کوئی سقم نظر آئے تو اس کی شکایت کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ اگلے مرحلے میں ایک اور موثر اور جامع مہم گداگری کے حوالے سے شروع کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ کوئی بھی بچہ سگنل یا گلیوں میں بھیک مانگتا ہوا نظر نہ آئے۔ واضح رہے کہ اسٹریٹ چلڈرن سینٹر کورنگی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ وزیر اعلی سندھ نے صوبائی وزیر ورکس اینڈ سروسز ناصر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ اسے جنگی بنیادوں پر مکمل کریں اور اس وقت تک بھیک مانگنے والے بچوں کو سویٹ ہوم میں رکھا جائے گا۔

سندھ کابینہ نے اپنے 1745815ٹن گندم کے اسٹاکس کو 3315 روپے فی سو کلو جوٹ بیگ اور 3250 روپے پی پی بیگ کے ساتھ ڈسپوز آف کرنے کا فیصلہ کیا اس طرح صوبائی خزانے پر سبسڈی کی صورت میں 6.7 بلین روپے کا مالی بوجھ پڑے گا ۔ وزیراعلی سندھ نے چیف سیکریٹری ممتاز شاہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری خوراک بطور ممبر شامل تھے انہوں نے جاری قیمت سے متعلق سفارشات پیش کیں۔

کمیٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹاک پوزیشن 1745815 ٹن ہے۔ کمیٹی نے گندم ڈسپوز آف کرنے کے لئے 3 آپشن دیئے۔ پہلے آپشن کے مطابق 3400 روپے فی سو کلو بیگ(جوٹ) اور 3335 روپے پی پی بیگ جس کے تحت 5904 بلین روپے سبسڈی کی مد میں بنتے ہیں۔ دوسرے آپشن میں 3350 روپے فی سو کلو جوٹ بیگ اور 3300 روپے پی پی بیگ جس کے نتیجے میں 6.303 بلین روپے کا بوجھ پڑے گا اور تیسرے آپشن میں 3315 روپے فی سو کلو جوٹ بیگ اور 3250روپے پی پی بیگ اور اس کے نتیجے میں 6.761 بلین روپے سبسڈی کی صورت میں مالی بوجھ پڑے گا۔

کابینہ کو بتایاگیا کہ اگر 3 نمبر آپشن منظور کیا جاتا ہے تو تمام اسٹاک تاجر حضرات اٹھالیں گے اگر اسٹاک فوری اٹھا لیا جاتا ہے تو اس سیسبسڈی کے بوجھ میں کمی آئے گی کیونکہ فیومیگیشن اور مناسب اسٹوریج کی مد میں ہونے والے بھاری اضافی اخراجات نہیں کرنا پڑیں گے مزید یہ کہ اناج کو کیڑا بھی نہیں لگے گا لہذا آنے والی گندم کی فصل، اسٹاک کی صورتحال اور دیگر اخراجات سے بچنے کے لیے کابینہ نے آپشن نمبر 3 کی منظوری دی جس کے تحت3315 روپے فی سو کلوگرام جوٹ بیگ اور 3250 روپے فی سوکلوگرام پی پی بیگ کے ساتھ بطور جاری قیمت کے مقرر کئے گئے ۔

کابینہ نے سندھ نیو کیپیٹیو پاور پلانٹس (ایس این سی پی پی ) پر ٹیرف کے فرق کی سبسڈی کے حوالے سے تفصیلی غور کیا گیا۔ کابینہ کو بتایاگیا کہ حکومت کو 6 ایس این سی پی پی کے 2.3 بلین روپے کے کلیمز موصول ہوئے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ یہ 6 ایس این سی پی پی دیہی علاقوں مثلا دادو، شکار پور، ٹھٹھہ وغیرہ میں واقع ہیں اور 103.7 میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور اسے لوکل گرڈ میں فیڈ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی بدولت چھوٹے اضلاع یعنی شکارپور میں لوڈ شیڈنگ میں کس قدر فرق پڑ رہا ہے اس پر صوبائی وزیر انرجی امتیاز شیخ نے کہا کہ اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑ رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ پیدا ہونے والی بجلی نیشنل گرڈ میں فیڈ کی جا رہی ہے لہذا اس کے اسسمنٹ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وزیراعلی سندھ نے صوبائی وزیر کو ہدایت کی کہ وہ مقامی لوڈ شیڈنگ میں پڑنے والے فرق کا احاطہ کرنے کا انتظام کریں اور انہیں رپورٹ دیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ایس این سی پی پی کے کلیم کی چارٹر اکائونٹنٹ سے تصدیق کرائی جائے کہ تمام سبسڈی کلیمز ایکٹ ، قواعد ، ٹیرف پالیسی، نیپرا ٹیرف اور دیگر متعلقہ قواعد کے مطابق ہیں۔ کابینہ نے 2.3 بلین روپے کی سبسڈی کی منظوری دی اور اس کی ادائیگی قانون کے مطابق کی جائے گی۔وزیر اعلی سندھ کے معاون خصوصی برائے پانی اشفاق میمن نے کابینہ کو بتایا کہ ارسا نے رواں ربیع کے لیے آبپاشی کے پانی کی 38 فیصد کی قلت ڈکلیئر کی ہے اور اس قلت میں اضافے کا اندیشہ ہے۔

صوبائی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ نومبر اور دسمبر 2018 ء کے مہینوں کے دوران گندم کی فصل کی بوائی کے لیے زیادہ فراہمی کے مقابلے میں دسمبر کے آخری 10 دن اور جنوری کے آخر میں پانی کی فراہمی کم رکھی جائے گی تاکہ بندش کا فائدہ اٹھایا جاسکے اور فروری کی فصلوں کے لیے پانی کو محفوظ بنایا جاسکے۔کینالز ، برانچز اور شاخوں اور چشموں میں پانی کی فراہمی متعلقہ ریجنز کی جانب سے تیار کئے گئے روٹیشن پلان کے مطابق رکھی جائے گی۔ پینے کے پانی کی باقاعدہ فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا۔ کابینہ نے زکوة اینڈ عشر کے قانون میں ترمیم کی منظور دی جس کے تحت کراچی شہر کو 6 اضلاع میں ڈکلیئر کیاگیا ہے تاکہ اس کے مطابق زکوة تقسیم کی جاسکے۔