دارالعلوم حقانیہ کی مولانا سمیع الحق کے پوسٹ مارٹم کی مخالفت

دارالعلوم حقانیہ کا پوسٹ مارٹم کیخلاف فتویٰ جاری، فتویٰ کل سیشن کورٹ نوشہرہ میں جمع کرایا جائے گا، شرعی نکتہ نظرسے انسانی جسم زندہ یا مردہ دونوں حالت میں قابل احترام ہے۔ فتوے کا متن

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 19 نومبر 2018 20:22

لاہور(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔19 نومبر 2018ء) دارالعلوم حقانیہ نے شہید مولانا سمیع الحق کے پوسٹ مارٹم کی مخالفت کردی ہے، دارالعلوم حقانیہ نے پوسٹ مارٹم کے خلاف فتویٰ جاری کردیا، جمعیت علماء اسلام(س) کے قائم مقام امیر مولانا حامد الحق نے کہا کہ فتویٰ کل سیشن کورٹ نوشہرہ میں جمع کرایا جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالعلوم حقانیہ نے پوسٹ مارٹم کے خلاف فتویٰ جاری کردیا ہے۔

مولانا سمیع الحق کے قتل کی تفتیش کیلئے میت کا پوسٹ مارٹم کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جس پر نوشہرہ ی سیشن کورٹ نے لواحقین سے جواب طلب کیا تھا۔ تاہم اب دارالعلوم حقانیہ کی شہید مولانا سمیع الحق کے پوسٹ مارٹم کی مخالفت کردی ہے اور فتویٰ بھی جاری کردیا ہے۔ فتویٰ کل سیشن کورٹ نوشہرہ میں جمع کرایا جائے گا۔

(جاری ہے)

فتوے کے متن کے مطابق میت کو قبرمیں دفنانے کے بعد نکال کرمنتقل کرنا جائزنہیں۔

شرعی نکتہ نظرسے انسانی جسم زندہ ہو یا مردہ حالت میں ہو، قابل احترام ہے۔ واضح رہے راولپنڈی کی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم نے قانونی تقاضے پورے کرنے اور پوسٹ مارٹم کرانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور تفتیشی ٹیم نے سیشن جج راولپنڈی کو قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کرانے کی درخواست دائر کی تھی۔ سیشن جج نوشہرہ کی جانب سے احکامات ملنے پر متعلقہ مجسٹریٹ نے مولانا سمیع الحق کے لواحقین، مقامی پولیس اور حکام کو نوٹسز جاری کیے تھے۔

تفتیشی ٹیم کے سب انسپکٹر جمیل کی قیادت میں پولیس ٹیم اکوڑہ خٹک میں موجود ہے اور اسے قبر کشائی اور پوسٹ مارٹم کیلئے عدالتی کارروائی مکمل ہونے تک وہیں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔راولپنڈی پولیس کے ایس ایچ او ائیرپورٹ انسپکٹر عامر مولانا سمیع الحق کے سیکرٹری احمد شاہ کو ڈھونڈ کر راولپنڈی لانے کیلئے بھی اکوڑہ خٹک میں موجود ہیں جبکہ مولانا کے دو موبائل فونز اور سیکرٹری سید احمد شاہ کے موبائل نمبرز کی فرانزک رپورٹ پولیس کو مل گئی ہیں۔

پولیس کے مطابق مولانا عام فون اور سیکرٹری احمد شاہ اسمارٹ فون استعمال کرتے تھے۔ احمد شاہ کی جانب سے زیادہ تر فون کالز اسمارٹ فون اپلیکیشنز واٹس ایپ، وائبر اور ایمو وغیرہ پر کی گئیں۔ اس سے بھی پولیس کو مشکلات کا سامنا ہے۔