پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے مابین امن و مفاہمت کے لئے کوششیں کی ہیں‘ یمن تنازعہ کے حل کے لئے بھی پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا‘یمن تنازعے کے حل کے لئے تمام فریقین کے مابین مذاکرات کرائے جائیں گے

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا قومی اسمبلی کے اجلاس میں مہرین رزاق بھٹو کے سوال کے جواب میں تحریری جواب

پیر 10 دسمبر 2018 22:04

پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے مابین امن و مفاہمت کے لئے کوششیں کی ہیں‘ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 دسمبر2018ء) قومی اسمبلی کو وزارت خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے مابین امن و مفاہمت کے لئے کوششیں کی ہیں‘ یمن تنازعہ کے حل کے لئے بھی پاکستان اپنی کوششیں جاری رکھے گا اور یمن تنازعے کے حل کے لئے تمام فریقین کے مابین مذاکرات کرائے جائیں گے۔ پیر کو ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے تحریری جواب میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ 10 اپریل 2015ء کو پارلیمنٹ کی قرارداد کی روشنی میں یمن تنازعہ میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی وزیراعظم نے 24 اکتوبر 2018ء کو اپنے خطاب میں پیشکش کی ہے۔

پاکستان عالم اسلام کے تمام ممالک کے ساتھ قریبی اور دلی تعلقات رکھتا ہے۔

(جاری ہے)

ہم اس پر یقین رکھتے ہیں ‘ یمن تنازعہ کے حل کے لئے تمام جماعتوں کے مابین بین الیمنی مذاکرات کرائے جائیں۔ پاکستان نے ہمیشہ امت مسلمہ کے مابین امن و مفاہمت کے لئے کوششیں کی ہیں اور اس ضمن میں بھی اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ دونوں جانب سے قابل قبول ہونے کی صورت میں ہم دو برادرانہ ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

شمس النساء کے افغان طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں پاکستان کی شرکت کے حوالے سے حکومت کی پالیسی سے متعلقہ سوال کے جواب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے تحریری جواب میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں امن سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوتا ہے اور اسی طرح افغانستان میں بدامنی سے پاکستان زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

حکومت پاکستان میں اقتصادی ترقی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لئے افغانستان میں امن اور استحکام کا ہونا ضروری ہے۔ افغانستان کے تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں۔ واحد قابل عمل حل یہ ہے کہ افغانستان خود سیاسی مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کے لئے کوششیں کی ہیں۔ اور اس بات پر زور دیا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور کسی ایک ملک سے یہ کام انجام دینے کی توقع نہیں کی جانی چاہیے۔

اسی جذبے کے تحت پاکستان نے جولائی 2015ء میں مری امن مذاکرات کا اہتمام کیا تاہم ملا عمر کی ہلاکت کی خبر افشاں ہونے پر امن مذاکرات ترک کردیئے گئے۔ پاکستان نے امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے ضمن میں طالبان کو راضی کرنے کے لئے چار طرفہ معاونتی گروپ (کیو سی جی) کے ذریعے اہم کردار ادا کیا تاہم مذاکرات شروع ہونے سے چند دن قبل ملا اختر منصور کے امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کی بناء پر امن عمل تعطل کا شکار ہوگیا۔

تحریری جواب میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان تمام علاقائی اور بین الاقوامی فورمز پر ایک موثر اور متحرک پالیسی رکھتا ہے جس کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام بشمول یو این ایشیا کا قلب استنبول عمل‘ چار جہتی تعاون گروپ (کیو سی جی) ایس سی او رابطہ گروپ بابت افغانستان کابل عمل‘ ماسکو تشکیل اور تاشقند کانفرنس جو کہ افغانستان میں امن کی بابت ہے۔