سپریم کورٹ کاوفاق اور صوبائی حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کرنے کا حکم، کیس کی سماعت صبح تک ملتوی

منگل 11 دسمبر 2018 15:02

سپریم کورٹ کاوفاق اور صوبائی حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر فیصلہ ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی تجاوزات کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ ہم نے گھر توڑنے کا حکم نہیں دیا،کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا،سن لیں!غیر قانونی قبضے ہرگز برداشت نہیں کروں گا ، جو کرنا ہے کریں،قبضے خالی کرائیں،کراچی صاف کریں،وفاق،سندھ حکومت اور میئرمل بیٹھ کر معاملہ دیکھیں۔

آپریشن سے متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو وہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے،کیس کی سماعت آج( بدھ)صبح 8بجے تک ملتوی کردی گئی۔منگل کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجاوزات کے خلاف آپریشن سے متعلق نظرثانی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔

(جاری ہے)

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور احمدخان،میئرکراچی وسیم اختراورایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

سندھ حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین پیش ہوئے جب کہ میئر کراچی وسیم اختر کی عدم موجودگی پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وسیم اختر کو فوری طلب کر لیا۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے نظر ثانی کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے ایمپریس مارکیٹ کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تھا تاہم پورے شہر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی پر تحفظات ہیں۔

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ آپریشن کو بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے، جس دکاندار کی دکان گئی اس کا تو روزگار ہی چلا گیا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ایمپریس مارکیٹ کے اطراف کا علاقہ خالی کرا لیا گیا ہے ہمارا پہلا حکم یہ تھا کہ ایمپریس مارکیٹ کے تجاوزات کا خاتمہ کریں اور اب سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا فریضہ پورا کرے اور متاثرین کو اگر متبادل جگہ دینی ہے تو سندھ حکومت دے، ہم نے کب منع کیا ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ایمپریس مارکیٹ کو ماڈل کے طور پر صاف کرنے کا کہا تھا اور اب تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ نے صورتحال خراب کر دی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ سڑک اور فٹ پاتھ پر تجاوزات کا خاتمہ ہو۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے اور آپ کو اور وفاقی حکومت کو پریشانی لگ گئی ہے، آپ کو اندازہ نہیں میئر کراچی نے اپنا سیاسی مستقبل دائو پر لگا دیا ہے، ہمیں ہرحال میں قانون کی بالادستی چاہیے۔

ہم کراچی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں مگر آپ لوگوں کی مصلحت آڑے آرہی ہے۔ ہمیں ہرحال میں قانون کی بالا دستی چاہیے۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا کہ ہم کراچی والے ہیں ہم بھی بہتری چاہتے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کے دوران ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بڑے مسائل ہیں، سرکاری مکانوں پر لوگوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، ہم نے خالی کرانے کا حکم دیا تو یہاں ہنگامہ شروع ہوگیا، گورنر صاحب نے کال کرکے کہا کہ یہاں امن و امان کی صورت حال خراب ہوگئی، کیا اس طرح غیر قانونی قابضین کو چھوڑدیں ، لوگ احتجاج شروع کردیں اور ہم ریاست کی رٹ ختم کردیں، کیا قبضہ مافیا کے سامنے سرجھکا دیں کراچی کو اسی طرح چھوڑدیں ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ہم کارروائی روک دیں گے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

متاثرین کی بحالی اور متبادل جگہ کا انتظام حکومت خود کرے۔ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ چار ہفتے کا وقت دے دیں مسئلے کا حل نکالیں گے۔میئر کراچی نے کہا کہ ہم عمل درآمد کررہے ہیں بس گھروں کو نہ توڑا جائے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے گھروں کو توڑنے کا حکم تو نہیں دیا، آپ خود کررہے ہیں تو ہمارا مسئلہ نہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے دیکھا تھا نالے پر عمارت بنی ہوئی ہے، اس کا کیا ہوا ، ڈی جی ایس بی سی اے نے کہا کہ نہرِ خیام پر ایک عمارت بنی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصلہ کریں جو کرنا ہے اور قانون کے مطابق کام کریں۔ آپ کو ایک ایک پارک کی زمین خالی کرانا ہو گی۔، میئر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ باغ ابنِ قاسم میں ایک عمارت ہے، وہاں مسلح لوگ بیٹھے ہیں اور شاید معاملہ ہائی کورٹ میں ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میئر صاحب آپ کو کسی نے نہیں روکا کام جاری رکھیں، کون ہے قبضہ کرنے والا بتائیں ، ابھی ہائی کورٹ سے فائل منگواتے ہیں، اچھی طرح سن لیں غیر قانونی عمارت اور قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے ۔

چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ہم مکمل سپورٹ کریں گے۔ سندھ حکومت، وفاقی حکومت اور میئر کراچی مل کر حکمت عملی بنائیں۔ جو بھی کریں لیکن قبضے ختم کرائیں۔چیف جسٹس نے میئر کراچی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کیا رکاوٹیں ہیں کیا سندھ حکومت کو نالوں پر قبضے خالی کرانے پر اعتراض ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ میئر کراچی کو چار ہفتوں کے لیے آپریشن سے روکیں وہ بہت تیزی سے تجاوزات گرا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم کیوں روکیں، آپ لوگ مل کر بیٹھیں۔ سندھ حکومت کہنا چاہ رہی ہے کہ قبضے ہو گئے ہیں اب انہیں قانونی تحفظ دے دیں۔سلمان طالب الدین نے موقف اختیار کیا کہ تجاوزات کے دوران گھر توڑے جا رہے ہیں اور میئر کراچی کے پاس بحالی کا کوئی پلان نہیں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ میئر کراچی نے پورا پلان بنا رکھا ہے جب کہ بحالی کا منصوبہ بنانا تو سندھ حکومت کا کام ہے۔

ہم تجاوزات کے خلاف آپریشن بند نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ اب اگر ہم نے روک دیا تو پھر یہ کبھی نہیں ہو پائے گا۔چیف جسٹس نے وفاقی اور سندھ حکومت کو میئر کراچی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات ٹھیک کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ رات کو بیٹھ کر آپس میں فیصلہ کر لیں کہ کیا اور کس طرح کرنا ہے ہم رات کو بھی یہیں پر ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ کارروائی جاری رہنی چاہیے، اگر تسلسل ٹوٹ گیا تو پھر کام ہونا مشکل ہے، تینوں حکام ٹھنڈے دل سے فیصلہ کرکے آئیں۔

دوران سماعت ایک شہری نے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اویس مظفر ٹپی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بتایا کہ شاہ لطیف ٹائون میں بڑے پیمانے پر ناجائز قبضہ ہے، بیوائیں روتی ہیں، اور یہ قبضے اویس مظفر ٹپی نے کرائے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون ہے یہ ٹپی کہاں ہے یہ ٹپی اسے کل پیش کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایڈووکیٹ جنرل صاحب کی حکومت یا کسی وزیر نے کہیں قبضہ کیا ہوا ہے تو فوری خالی کریں، میئر صاحب آپ بھی کان کھول کرسن لیں دو دن میں کسی رہنما یا کسی نے قبضہ کیا ہے تو خالی کردے، آپ صفائی گھر سے شروع کریں اور لوگوں کیلئے مثال بنائیں، کسی کے قبضے کی نشاندہی ہوگئی تو ہم نہیں چھوڑیں گے۔

چیف جسٹس نے مقدمہ کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے آٹھ بجے تک ملتوی کر دی۔