پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کو انتظامی کنٹرول میں لانے کیلئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں‘ وزارت اطلاعا ت و نشریات

وزارت اطلاعات نے پاکستان ٹیلی ویژن کے تمام چینلز کی سالانہ آمدن اور اخراجات کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں رواں سال پی ٹی وی کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے ،ْ 12 ٹاسک فورس قائم کی گئی ہیں ،ْبلوچستان سے متعلقہ کسی بھی ٹاسک فورس میں اس صوبہ کی نمائندگی ہونی چاہیے ،ْپی آئی اے کا کھویا ہوا مقام بحال کریں گے ،ْوقفہ سوالات کے دور ان علی محمد خان کا اظہار خیال قومی اسمبلی میں شجرکاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سوالات موخر کر دیئے گئے

جمعہ 14 دسمبر 2018 15:40

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2018ء) قومی اسمبلی کو بتایا گیاہے کہ پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کو ایک انتظامی کنٹرول میں لانے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں‘ رواں سال پی ٹی وی کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے ،ْ 12 ٹاسک فورس قائم کی گئی ہیں ،ْبلوچستان سے متعلقہ کسی بھی ٹاسک فورس میں اس صوبہ کی نمائندگی ہونی چاہیے ،ْپی آئی اے کا کھویا ہوا مقام بحال کریں گے۔

جمعہ کو وقفہ سوالات کے دوران وزارت کی جانب سے بتایاگیا کہ پی بی سی کے اثاثوں کے ضمن میں فیصلہ پی بی سی بورڈ آف ڈائریکٹرز کرتا ہے جو مجاز فورم ہے ،ْ پی بی سی کی عمارت کو پٹہ پر نہیں دیا جارہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے اور اسے منافع بخش بنانے کے لئے حکومت اقدامات کرے گی۔

(جاری ہے)

کسی کو بیروزگار نہیں کریں گے تاہم گزشتہ ادوار میں یہاں اپنے من پسند لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔

وزیر اطلاعات و نشریات کے مطابق ریڈیو پاکستان میوزیم میں جاکر علم ہوگا کہ 1960ء میں ریڈیو کے ٹرانسمیٹر سمیت دیگر آلات ہم خود بناتے تھے تاہم اب ہر چیز درآمد کی جارہی ہے۔ ریڈیو کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ ہر سال پانچ ارب 65 کروڑ حکومت دیتی ہے۔ ریڈیو کی آمدن 20 کروڑ روپے ہے۔ ہم ایک جامع پلان تشکیل دے رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کا بورڈ ایک کردیا ہے۔

اگلے مرحلے میں اسے ایک انتظامی چھتری تلے لائیں گے۔ اس سال پی ٹی وی کو منافع میں لائیں گے اور اگلے دو سالوں میں ریڈیو کو بھی اس صورتحال سے نکال لیں گے۔اجلاس کے دور ان وزارت اطلاعات کی جانب سے بتایا گیا کہ پی ٹی وی ہوم کو ٹی وی فیس کی مد میں 6 ارب 64 کروڑ 92 لاکھ‘ کمرشل و دیگر مد میں ایک ارب 17 کروڑ 95 لاکھ روپے سے زائد آمدن جبکہ اس کے اخراجات 5 ارب 81 کروڑ 80 لاکھ روپے رہے۔

پی ٹی وی نیوز کو ٹی وی فیس کی مد میں 11 کروڑ 56 لاکھ جبکہ کمرشل کی مد میں بارہ کروڑ 18 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی جبکہ اس کے اخراجات ایک ارب 82 کروڑ رہے۔ پی ٹی وی سپورٹس کو ٹی وی فیس کی مد میں 63 کروڑ 35 لاکھ جبکہ کمرشل کی مد میں 33 کروڑ 52 لاکھ روپے کی آمدن ہوئی جبکہ اس کے کل اخراجات 97 کروڑ 20 لاکھ روپے سے زائد رہے۔ ایک سوال کے جواب میں علی محمد خان نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے 12 ٹاسک فورس سول سروس میں اصلاح کے لئے قائم کی ہیں۔

اس میں سول اصلاحات‘ کفایت شعاری‘ انرجی ریفارمز ‘ سیاحت‘ صحت‘ تعلیم‘ سول لاء ریفارمز‘ آئی ٹی و ٹیلی کام‘ فوجداری قانون‘ نیب لاء ریفارمز شامل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے گوادر سے کوئٹہ جاتی تھی اب نہیں ہے۔ اس کو بحال کرنے کے لئے احکامات جاری کریں گے۔ بلوچستان سے متعلقہ معاملات پر کسی بھی فورم پر ضروری ہے کہ اس میں بلوچستان کی نمائندگی ہو۔

انہوں نے بتایا کہ ان ٹاسک فورسز میں کسی مشیر کی تعیناتی نہیں کی گئی ہے۔ ان ٹاسک فورسز میں سارے اہل لوگ شامل ہیں۔ انہیں کوئی مراعات نہیں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے حوالے سے ٹاسک فورس کی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کردیں گے۔ علی محمد خان نے بتایا کہ ایک زمانہ میں پاکستان سے ہمارے جہاز ہر بڑے شہر جاتے تھے۔ نیو یارک‘ ہوسٹن‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ گلاسکو‘ بریڈ فورڈ‘ ماسکو‘ ترکمانستان‘ ایمسٹرڈیم ‘ قاہرہ‘ افریقہ میں پروازیں جاتی تھیں اب صرف کینیڈا میں پرواز جارہی ہے۔

ہم روس سے معاہدے کریں گے۔ اس طرح ملک میں چھوٹے شہروں میں پروازیں نہیں جارہی ہیں۔ وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ گزشتہ حکومتیں جو نہیں کر سکیں وہ ہم کریں گے ،ْایئرفورس کے حاضر سروس آفیسر کو انچارج بنایا گیا ہے‘ ہم کرکے دکھائیں گے۔قومی اسمبلی میں شجرکاری اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے سوالات موخر کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ اس ضمن میں متعدد شعبے صوبوں کو منتقل ہو گئے ہیں‘ اس لئے اٹھارہویں ترمیم کے تحت یہ وفاق کے دائرہ کار میں نہیں آتے تاہم اپوزیشن کا موقف تھا کہ صوبوں سے معلومات حاصل کرکے ایوان کو دی جاسکتی ہیں۔

چوہدری محمد برجیس طاہر کے سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے موسمیاتی تبدیلی زرتاج گل نے بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ شجرکاری مہم پر اب تک صوبہ وار اخراجات کی تفصیل صوبوں سے موصول ہونا ہے۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ وزراء یہاں موجود نہیں ہیں۔ سپیکر کے کہنے پر سید فخر امام نے بتایا کہ 47 شعبہ جات صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔

شازیہ مری نے بتایا کہ 18ویں ترمیم میں جو محکمہ جات صوبوں کو دیا گیا وہ ان کی ذمہ داری ہے۔ شجرکاری کا معاملہ وفاقی ہے۔ وفاق سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بہت سے کنونشن پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ صوبوں سے اطلاعات لی جاسکتی ہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ یہ وفاق کا منصوبہ ہے۔ جو گرین پاکستان کے نام سے ہے اور لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ یہ وزیراعظم کا پروگرام ہے۔

رانا تنویر حسین نے کہا کہ اطلاعات لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔ مریم اورنگزیب نے بتایا کہ معلومات لی جاسکتی ہیں اس پر عملدرآمد وفاق کر رہا ہے۔ زرتاج گل نے کہا کہ شجرکاری مہم کے حوالے سے تمام اعداد و شمار و اخرزاجات نچلی سطح سے آنے تھے۔ میونسپل کارپوریشنوں تک سے جواب درکار تھا۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی صوبوں کے ساتھ مل کر شجرکاری مہم چلا رہی ہے۔ اس مہم میں بعض ادارے خود اخراجات کرکے شامل رہے ہیں۔ جرمن انڈیکس نے کے پی کے میں بلین ٹری سونامی مہم کو سرٹیفائیڈ کیا ہے۔ سپیکر نے اس سوال کو موخر کردیا۔