پاکستان میں فٹبال کا اسٹرکچرتباہ حال ہے، سابقہ فیڈریشن کے عہدیدران ہمارے لیے مشکلات چھوڑ کر گئے ہیں، صدر پاکستان فٹبال فیڈریشن

پاکستان میں فٹبال کا فروغ چاہتے ہیں، فٹبال کی بہترین کیلیے کام نہ کر سکے توخود ہی عہدہ چھوڑ دوں گا،ہاکی کو کروڑوں روپے دینے والی حکومت فٹبال کی بھی اعانت کرے، سید اشفاق حسین

اتوار 13 جنوری 2019 14:10

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جنوری2019ء) پاکستان فٹبال فیڈریشن کے صدر سید اشفاق حسین نے کہا ہے کہ پاکستان میں فٹبال کا اسٹرکچرتباہ حال ہے، سابقہ فیڈریشن کے عہدیدران ہمارے لیے مشکلات چھوڑ کر گئے ہیں، انہوں نے دل کھول کر لوٹ مار کی،پاکستان میں فٹبال کا فروغ چاہتے ہیں، فٹبال کی بہترین کیلیے کام نہ کر سکے توخود ہی عہدہ چھوڑ دوں گا، فٹبال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے رکن ممالک پر پابندی لگانا کوئی نئی بات نہیں، فیفا کو قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی، اگر پھر بھی فیفا نے پاکستان کو معطل کیا تو لائحہ عمل بنائیں گے، فٹبال میں کروڑوں روپے کی کرپشن کا حساب لیا جائے گا، ہاکی کو کروڑوں روپے دینے والی حکومت فٹبال کی بھی اعانت کرے۔

مقامی ہوٹل میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سید اشفاق حسین نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے حکم پر ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوئے، کوشش کی جائے گی کہ پاکستان پر فیفا کی جانب سے پابندی عائد نہ ہو، اس ضمن میں ایک وفد بھیج کر فٹبال کی عالمی تنظیم اور ایشائی باڈی اے ایف سی کو حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے اصل صورتحال بتائی جائے گی،ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں گے، تاہم اگر فیفا کی جانب سے پاکستان کو وقتی طور پر معطل بھی کر دیا جائے گا تو اس سے نبٹنے کے لیے اقدامات کریں گے۔

(جاری ہے)

پی ایف ایف کے صدر نے کہا کہ فٹبال شیڈول میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے،میچز، کوچنگ اسٹاف کے تربیتی کیمپ میں تبدیلی نہیں ہوگی،نوجوان کھلاڑیوں کیلییٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کا انعقاد کریں گے، سابق قومی کپتان کلیم اللہ سمیت کسی سے بھی زیادتی نہیں کی جائے گی۔سید اشفاق حسین نے الزام عاائد کیا کہ سابق صدرفیصل صالح حیات نے سپریم کورٹ کے منع کرنے کے باجودفیفا کی جانب سے فراہم کردہ رقم واپس کردی جبکہ فیصل صالح حیات نے اے ایف سی اجلاس میں غیر قانونی طور پر شرکت کی اور8ماہ میں 23 کروڑ روپے خرچ کر ڈالے، یہ رقم کہاں خرچ ہوئی کسی کو کچھ نہیں پتا، پاکستان میں گول پروجیکٹ کے منصوبوں کے لیے ملنے والے کروڑوں روپے کا حساب دینے والا کوئی نہیں ہے، ذمہ داران کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا، بد عنوانی کو برداشت نہیں کیا جائے گیا۔