18ویں ترمیم میں ہسپتالوں کی منتقلی کامعاملہ، جسٹس مقبول باقر کا اختلافی نوٹ

پاکستان وفاقی جمہوریہ ہے، وفاقی مقننہ کے پاس صحت سے متعلق قانون سازی کا اختیار نہیں، آرٹیکل142وفاقی حکومت کی قانون سازی کی حدود واضح کرتا ہے، وفاقی نظام میں کچھ اختیارات مرکز اورکچھ صوبوں کے پاس ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر کے اختلافی نوٹ کا متن

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 17 جنوری 2019 19:25

18ویں ترمیم میں ہسپتالوں کی منتقلی کامعاملہ، جسٹس مقبول باقر کا اختلافی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔17 جنوری2019ء) آئین میں اٹھارویں ترمیم سے متعلق سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجربینچ میں شامل جسٹس مقبول باقر نے فیصلے پر اپنا اختلافی نوٹ جاری کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں صحت کا شعبہ ہمیشہ صوبوں کے پاس رہا، صوبائی خود مختاری کو کم نہیں کرنا چاہیے، آرٹیکل 142 وفاقی حکومت کی قانون سازی کی حدود واضح کرتا ہے، وفاقی نظام میں کچھ اختیارات مرکز اور کچھ صوبوں کے پاس ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس مقبول باقر نے چار رکنی لارجر بنچ کے فیصلے سے اختلافی نوٹ میں کہا کہ پاکستان وفاقی جمہوریہ ہے۔ ہمارے آئین میں کچھ اختیارات وفاق اور کچھ صوبوں کے پاس ہیں۔وفاقی نظام کے تحت کچھ اختیارات مرکز اور کچھ صوبوں کے پاس ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہماری تاریخ میں صحت کا شعبہ ہمیشہ صوبوں کے پاس رہا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے مزید لکھا کہ صحت کا شعبہ کبھی بھی وفاق کے پاس نہیں رہا۔

اٹھارویں ترمیم میں بھی صحت کا شعبہ صوبوں کے حوالے کیا گیا ہے۔ 18ویں ترمیم کی انٹری 37 میں حکومتی اثاثوں کے مقاصد واضح کیے گئے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ وفاقی مقننہ کے پاس صحت کے بارے میں قانون سازی کا اختیار نہیں۔ صحت کا شعبہ اس فہرست پر نہیں جس پر وفاق قانون سازی کرسکے۔ صحت سہولت کا بھی کوئی مرکز وفاقی حکومت کے زیر انتظام نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین ریاست کے ہر ادارے کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ آرٹیکل 142وفاقی حکومت کی قانون سازی کی حدود واضح کرتا ہے۔ ان حدود کا احترام کرنا ضروری ہے۔ہمیں صوبائی خود مختاری کی حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی خود مختاری کو کم نہیں کرنا چاہیے۔ واضح رہے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار کی سربراہی میں5 رکنی بنچ نے آج فیصلہ جاری کیا ہے، فیصلہ چار ججز کی اکثریت سے جاری کیا گیا۔

بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔ شیخ زید ہسپتال کسی قانونی اقدام کے بغیر صوبے کے حوالے کیا گیا۔عدالت نے کہاکہ جناح ہسپتال،این آئی سی وی ڈی، نیشنل چائلڈ ہیلتھ اور نیشنل میوزیم صوبوں کے حوالے کئے گئے تھے۔فیصلہ میں کہا گیا کہ ہسپتال کی منتقلی کے لیے مطلوبہ قانونی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ،ْاس معاملے میں 18 ویں ترمیم کی غلط تشریح کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ وفاقی حکومت ہسپتال بنانے اور چلانے کا اختیار رکھتی ہے۔ یہ حق زندگی کا معاملہ ہے جو کسی کا بھی بنیادی حق ہے۔ عدالتی فیصلہ میں کہا گیا کہ کراچی کے3 ہسپتال اور میوزیم بھی غیرقانونی طور پر صوبائی حکومتوں کے حوالے کئے گئے۔ فیصلہ کے مطابق چاروں ہسپتالوں اور میوزیم کا انتظام 90 روز میں صوبائی سے وفاقی حکومت کو منتقل کیا جائے۔

فیصلہ کے مطابق اگر 90 روز میں منتقلی نہ ہوسکے تو صوبہ وقت میں توسیع کی درخواست دے سکتا ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت متعلقہ اسپتالوں کے گزشتہ ایک سال کے اخراجات صوبوں کو ادا کرے۔عدالتی فیصلہ میں کہا گیا کہ کوئی بھی قانون اس اسپتال کی وفاق کی واپس منتقلی سے نہیں روک سکتا۔عدالتی فیصلہ میں کہا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اختیارات میں توازن ہونا چاہئے۔

عدالتی فیصلہ کے مطابق ہسپتالوں کی صوبوں سے وفاق میں منتقلی کے طریقہ کار کے تعین کیلئے کمیٹی قائم کی جائے۔ وفاقی حکومت منصوبوں کو چلانے کیلئے فنڈز مختص کرے۔ فیصلہ میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت ایک سال میں ہسپتالوں کے تمام پراجیکٹس کو اپنی تحویل میں لے۔ فیصلے کے مطابق ایک سال بعد پراجیکٹس کی ادائیگیوں کا زمہ وفاقی حکومت پر ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے مقدمہ نمٹا دیا۔