ایچ ای سی کے چیئرمین کی مسلسل کمیٹی کے اجلاس سے غیر حاضر ی پر کمیٹی کی چیئر پرسن راحیلہ مگسی کا برہمی کااظہار

حاضری کو یقینی بنایا جائے ورنہ کمیٹی ایکشن لے گی، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کا اجلاس کمیٹی کی چیئرپرسن

جمعرات 7 فروری 2019 19:44

ایچ ای سی کے چیئرمین کی مسلسل کمیٹی کے اجلاس سے غیر حاضر ی پر کمیٹی کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2019ء) ایچ ای سی کے چیئرمین کی مسلسل کمیٹی کے اجلاس سے غیر حاضر ی پر کمیٹی کی چیئر پرسن راحیلہ مگسی نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ حاضری کو یقینی بنایا جائے ورنہ کمیٹی ایکشن لے گی۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کا اجلاس کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر راحیلہ مگسی کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس میں جمعرات کے روز منعقد ہو ا جس میں کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر راحیلہ مگسی نے ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے چیئرمین کی مسلسل کمیٹی کے اجلاسوں سے غیر حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور ہدایات دیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کمیٹی میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں تاکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے متعلق امور کو بہتر انداز میں سرانجام دیا جا سکے۔

(جاری ہے)

سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ، سینیٹر دلاور خان اور سینیٹر محمد علی خان سیف کی جانب سے سینیٹ کے اجلاس میں اٹھائے گئے عوامی اہمیت کے مسائل پر تفصیلی بحث کی گئی جن کا تعلق ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے تھا۔ سینیٹر عثما ن خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان اور فاٹا کے طلباء کیلئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے میڈیکل کے شعبے میں سکالر شپ کا مسئلہ ایوان میں اٹھایا تھا۔

سینیٹر عثمان کاکٹر نے بتایا کہ ہائیر ایجو کیشن کمیشن ٹیسٹ بھی خود لیتا ہے اور انتخاب بھی خود کرتا ہے اس سال صرف 29 سکالر شپس دی گئی ہیں جبکہ پہلے ان کی تعداد 192 تھی۔ ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے حکام نے بتایا کہ 29 سیٹیوں میں سی14 فاٹا کیلئے اور باقی بلو چستان کیلئے مختص کی گئی ہیں جبکہ پی ایم ڈی سی کو بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ سیٹیوں میں اضافہ کرے۔

بتایا گیا کہ پی ایم ڈی سی نے 6 ماہ بعد صرف 3 سیٹیوں کا اضافہ کیا اور یہ نشستیں بھی میرٹ کی نشستوں سے نکالی گئی ہے جس پر فاٹا کے طلباء نے عدالت میں کیس کر دیا ہے۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اب آئندہ سے کوٹہ197 ہوگیا ہے۔کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر راحیلہ مگسی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں اگر ہائیر ایجو کیشن کمیشن کو اجازت دے دی گئی ہے تو پی ایم ڈی سی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے ہائیر ایجو کیشن کمیشن کے چیئرمین کی کمیٹی اجلاس سے مسلسل غیر حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اتنا اہم مسئلہ کمیٹی کے زیر غور ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کمیٹی کے سامنے ادارے کا موقف پیش کرنے سے گریزاں ہیں۔سینیٹر نعمان وزیر نے بھی سکالر شپ میں کمی پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پسماندہ علاقوں کو ان کے حقوق ملنے چاہیں۔

پی ایم ڈی سی حکام نے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن تجاویز دے تو ہم تعاون کریں گے۔ پی ایم ڈی سی کا کام میڈیکل کالجز کی رجسٹریشن کرناہے فنڈز ایچ ای سی جاری کرتا ہے۔ کمیٹی کی چیئر پرسن سینیٹر راحیلہ مگسی نے ہدایات دیں کہ ایچ ای سی سکالر شپس کے معاملے پر پی ایم ڈی سی کو آج ہی خط لکھے اور اس کی کاپی کمیٹی کو فراہم کی جائے۔ کمیٹی نے کہا کہ ایچ ای سی اور پی ایم ڈی سی فوری طور پر ایکشن لیں اورطلباء کے مسائل حل کیے جائیں۔

سینیٹر دلاور خان کی جانب سے عوامی اہمیت کے مسئلے کو زیر غور لاتے ہوئے بتایا گیا کہ مردان کے قریب 7 ہزار کنال زمین کے قریب 3 یونیورسٹیوں کو مختص کی گئی تھی تاہم وہاں کے غریب لوگ طویل عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ادائیگیوں سے محروم ہیں اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور ایچ ای سی کی طرف سے کوئی ریلیف نہیں ملا رہا۔متعلقہ حکام نے بتایا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے یونیورسٹی کی انتظامیہ خود پی سی ون بنا کر دیتی ہے شروع میں یہاں پر 2 ہزار روپے کے حساب سے فی مرلہ قیمت طے کی گئی تھی تاہم یہ مسئلہ ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔

سینیٹر دلاور خان نے کہا کہ جتنا وقت گزرتا جارہاہے اس زمین کی قیمت اور معاوضہ بڑھتا جارہا ہے لہذا بہتری اسی میں ہے کہ لوگوں کو ریلیف دیا جائے اور ادائیگیاں کر دی جائیں۔سینیٹر منظور کاکڑ نے کہا کہ کوئی بھی عدالت آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ سے منع نہیں کرتی لہذا اس معاملے کا بھی کوئی مناسب حل نکالا جائے۔کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سینیٹ نعمان وزیر کی سربراہی میں ایک ذیلی کمیٹی پہلے ہی تشکیل دی جا چکی ہے جس کی مقررہ مدت 17 فروری ہے جس کے بعد خصوصی طور پر اس مسئلے پر بھی ایک علیحدہ ذیلی کمیٹی قائم کی جائے گی تاکہ مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

سینیٹر بیرسٹر سیف کی جانب سے عوامی اہمیت کے مسئلے کو زیر غور لاتے ہوئے جامعات میں ایسے کورس پڑھائے جارہے ہیں جن کا طلباء کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور خاص طور پر وہ طلباء جو قانون کی ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہوں اور اس میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہوں وہ ایسے کورسز پڑھتے ہیں جن کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کی یونیورسٹیوں کی گائیڈ لائنز کو کاپی تو کر لیا ہے لیکن ان کا اطلاق مشکل ہے اور یہ مشکل صرف طلباء کو ہی پیش آتی ہے اور اپنے کریڈٹ آورز پورا کرنے کیلئے غیر متعلقہ کورس پڑھنے پڑھتے ہیں۔

حکام نے کمیٹی کو یقین دہانی کرائی کہ اس معاملے کو متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور جلد ہی اس مسئلے کا کوئی بہتر حل کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز مشاہد حسین سید ، گل بشریٰ ، نجمہ حمید، ہلا ل الرحمن، بہرامند خان تنگی ، نعمان وزیر خٹک ، منظور احمد کاکٹر، عثمان خان کاکڑ، دلاور خان اور محمد علی خان سیف کے علاوہ وفاقی سیکرٹری تعلیم، ایڈیشنل سیکرٹری تعلیم، پی ایم ڈی سی کے حکام اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔