عالمی مشاعرہ ،بیادِ مجروحؔ سلطان پوری

اپنی ثقافتی بُنت،ارتقاء اور عروج کے لحاظ سے مشاعرہ اب روایت کی حدود سے نکل کر ایک عمدہ ادبی قدرکا درجہ اختیار کر گیا ہے

Umer Jamshaid عمر جمشید جمعہ 22 فروری 2019 21:00

عالمی مشاعرہ ،بیادِ مجروحؔ سلطان پوری
بحرین (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 فروری2019ء،نمائندہ خصوصی،احمد امیرؔ پاشا،بحرین)

                    روک سکتا ہمیں زندانِ بلا کیا مجروحؔ
                    ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
     اپنی ثقافتی بُنت،ارتقاء اور عروج کے لحاظ سے مشاعرہ  اب روایت کی حدود سے نکل کر ایک عمدہ ادبی قدرکا درجہ اختیار کر گیا ہے۔

ہمہ جہت میکانکی ترقی کے نتیجے میں پیدا ہو نے والے ذہنی انتشار کی وجہ سے  اس کی علمی افادیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ۔ایک شاندار اور قابلِ فخرادبی قدرکے طور پر اس کا حسن مزید دو چندہوجا تا ہے جب اس کا انعقادعالمی سطح پرکیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ثقافتی اشتراک  واظہار کا وہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے جو دراصل کسی زبان اور اس سے وابستہ ادبی قدروں کا اصل مقصود ہے۔

(جاری ہے)

مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو  کے عالمی مشاعروں اور ان سے وابستہ نادر علمی و ادبی تحقیق نے جس مثالی اندازمیں اپنے فروغِ اُردو کے دعوے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے وہ بلا شبہ مشاعروں کی قدری اہمیت کو اجاگر کرنے کا ایک اچھوتا انداز ہے۔
    مجلس کے بانی و سرپرست جناب شکیل احمد صبر حدی کا ادبی شعور اس ضمن میں بہت متحرک و بیدار ہے، ان کا استدلال اس حوالے سے بڑا فعّال اور تاریخی حقائق پر مبنی ہے کہ اُردو کسی خاص مذہب یا سماج کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ برِّ صغیر جنوبی ایشیاء کی مشترک سماجی و علمی میراث ہے، اس زبان کی نشوو نما میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم شعراء و ادبّاء نے جو تاریخی کردار ادا کیا اس سے انکار تو کیا صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔

اس لئے مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو نے اپنے عالمی مشاعروں کے انعقاد میں بھی اسی  اصولی اعتراف کو اپنے لئے ضابطہ مقرر کر لیا کہ ایک سال کسی مسلم شاعر اور دوسرے سال کسی غیر مسلم شاعر کی یاد میں عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا جاتاہے ، ان عالمی مشاعروں کے انعقاد میں مجلس نے ایک نادر علمی جہت یہ نکالی کہ عالمی مشاعرے کے لئے نامزد شاعر کے فن اور شخصیت پر ہندوستان کی کسی معروف جامعہ میں سیمینار معقد کرا کے اساتذہ فن کی قیمتی تحریروں اور مقالہ جات کی کتابی شکل میں تالیف کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس پر مستزاد ایک دیدہ زیب مجلّے کی اشاعت ہے جو عالمی مشاعرے کا عنوان بننے والے شاعر اور اس مشاعرے میں شریک شعراء کے کلام پر مشتمل ہو تا ہے۔

اس طرح صاحبِ جشن شاعر کی زندگی اور فن پر ایسا قیمتی  اور مستند موادجمع ہو جاتا ہے جو بلا شبہ ایک گرانقدر علمی حوالے سے کم نہیں۔اب تک مجلس فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردونامور اُردو شعراء شہر یار،رگُو پتی سہائے فراق گورکھپوری،آنند نرائن مُلّا،خلیل الرّحمٰن اعظمی،عرفان صدیقی ،پنڈت برج نرائن چکبست اور مجروح سلطان پوری کی یاد میں عالمی مشاعروں کا انعقاد کے ساتھ ساتھ  ان شعرائے عظام کے علمی و شعری مقام پرمبسوط کتب  اور مجلوں کی اشاعت بھی عمل میں لا چکی ہے۔

اپنے حسنِ انعقاد کے لحاظ سے مجلس کے یہ عالمی مشاعرے بلا شبہ اُردو شعرو ادب کی روایتی پاسداری کا حسین اظہار ہی نہیں بلکہ اس کی قدری افادیت کا بر ملا اعتراف بھی ہیں، اور یوں بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کہ ستم ہائے زمانہ سے روایتیں تو ٹوٹتی اور بکھرتی رہتی ہیں لیکن سماج و ادب کی اساسی قدروں سے انحراف ممکن نہیں ہو تا اسی لئے اب بھی عالمی مشاعرے اُردو زبان کی مستند،شعری قدر کے طور پر اس کے شعری وجدان کے تحفظ کا فریضہ کما حقہ ادا کر رہے ہیں،مجلس کے عالمی مشاعروں کو اس ضمن میں تحقیق و تالیف کے لحاظ سے ایک گونہ تفوق حاصل ہے،
             ۱۵ فردری ۲۰۱۹ء کو ایوانِ ثقافت، مملکتِ بحرین میں مجلسِ فخرِ بحرین  کے زیرِ انتظام، اُردو کے مشہور شاعر اور گیت نگار مجروح شلطان پوری کی یاد میں عالمی مشاعرے کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔

اس کی صدارت ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے اُردو کے مشہور نقاد،ادیب شاعراور محقق ڈاکٹر شہپر رسول نے کی جبکہ مہمانِ اعزاز  محقق و مرتب’’ مجروح فہمی‘‘، معروف صحافی و ڈاریکٹرآئیڈیا کمیونیکیشنزجناب آصف اعظمی تھے ۔اس عالمی مشاعرے کی ابتدائی نشست کی نظامت کے فرائض جناب خرّم عباسی نے سر انجام دئے۔مشاعرے میں شریک دیگر شعرائے کرام کے اسمائے گرامی یہ ہیں،جناب ڈاکٹر نوازدیو بندی،جناب منصور عثمانی،جناب چرن سنگھ بشر،جناب اتُل اجنبی،جناب عزم شاکری،جناب ڈاکٹر مہتاب عالم، جناب سلیم سالم(انڈیا) جناب عمران عامی(پاکستان)جناب خالد صبرحدی(سعودی عرب) جناب احمد عادل، جناب رُخسار ناظم آبادی اور جناب سعید سعدی(مملکتِ بحرین)۔

بحرین کے ایوانِ ثقافت کی ملگجی روشنیوں میں صدرِ مشاعرہ جناب ڈاکٹر شہپر رسول،مہمانِ اعزاز جناب آصف اعظمی، جناب شکیل احمد صبر حدی  اور دیگر شعرائے کرام نے عالمی مشاعرہ بیاد مجروح کی شمعِ روشن کی ،بعد ازاں مجلسِ فخرِ بحرین کی شائع کردہ کتاب مجروح فہمی اور مذکورہ عالمی مشاعرے کے حوالے سے شائع کردہ مجلّے کی تقریبِ اجراء  صدرِ مشاعرہ، سرپرست و بانی مجلس  اور مہمانِ اعزاز کے ہاتھوں انجام پائی۔

اپنے خطبہ استقبالیہ میں جناب شکیل احمد صبر حدی نے مجلسِ فخرِ بحرین کے قیام و تاسیس کے حوالے سے مجروح ؔ صاحب کا یہ شعر پڑھ کر کوزے میں دریا بند کر دیا کہ،
                ؎    میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
                    لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
        جناب شکیل احمد صبر حدی نے تمام شعرائے کرام  اور اہلِ علم و ادب نواز سامعین و حاضرین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا مزید براں، مجلس کی تازہ تصنیف  ’’ مجروح فہمی‘‘  اور اس حوالے سے دو روزہ سیمینار کے انعقاد اور دیگر علمی معاونت کے لئے  انڈیا سے جناب آصف اعظمی اورقطر سے مجلس کے مشیرِ خاص جناب نبیل عزیز کے تعاون کا خصوصی شکریہ ادا کیا،انہوں نے مجلسِ فخرِ بحرین کے لئے ان دونوں احباب کی رفاقت کو بر ملا ایک نعمت قرار دیا۔

عالمی مشاعرے کے انعقاد اور مقامی شعری نشستوں کے حوالے سے انہوں نے  جناب خرّم عباسی، جناب  رخسار ناظم آبادی اور راقم الحروف(احمد امیر پاشا) کی معاونت کا بھی شکریہ ادا کیا۔
    مہمانِ اعزازجناب آصف اعظمی  نے اسس یادگار عالمی مشاعرے کے انعقاد کے لئے جناب شکیل احمد صبر حدی اور ان کے رفقائے تنظیم کو مبارکباد پیش کر تے ہوئے اس مشاعرے میں شرکت کو اپنے لئے ایک اعزاز قرار دیا، مزید براں مہمانِ اعزاز نے  مجروحؔ کے حوالے سے ممبئی یونیورسٹی میں دو روزہ سیمینار کے انعقاد اور ’’ مجروح فہمی ‘‘ کی اشاعت  کے ضمن میں  بانی و سرپرست مجلسِ فخرِ بحرین کی کشادہ دلی اور تعاون کے لئے ان کو قلبی سپاس بھی پیش کیا۔


    صدرِ عالمی مشاعرہ  بیادِ مجروحؔ ،جناب ڈاکٹر شہپر رسول نے،فروغِ اُردو کی عالمی کاوشوں اور سرپرستی کے لئے جناب شکیل احمد صبر حدی کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے مشاعرے کے علمی اور تحقیقی پہلو کو بھی سراہا، انہوں نے کہا کہ یہ جو مشاعرہ ہے، یہ خالص اُردو کی چیز ہے اس طرح کی محفلیں تو آج کل ہندی ، پنجابی اور وسری زبانوں اور  دوسرے ملکوں میں بھی ہوتی ہیں،لیکن یہ شعراء اور سامعین سے مل کر جو کل بنتا ہے وہ صرف مشاعرہ ہے۔

عوام کے سامنے شعر پڑھنا اور عوام کا اس پر ردِّ عمل آنا یہ صرف اُردو کی چیز ہے،مغلیہ زمانے میں اس کا آغاز ہوا اور اور خانِ آرزو میر تقی میر ،میر درد اور مصحفی کے عہد میں مشاعرہ ، ارتقائی مرحل طے کرتارہا ۔ان کے گھروں پر نشستیں ہوتی تھیں، اس وقت طریقہ یہ تھا خواص اہنے دیوان خانوں میں اور بڑے شعراء اپنے گھروں پر دوسرے شعراء کو مدعو کرتے تھے اپنا کلام سناتے تھے ، ان کا کلام سنتے تھے،اس میں عوام کا دخل نہیں تھا پھر مشاعرہ خواص کے دیوان خانوں سے مغل دربار میں پہنچا اور پھر عوام میں۔

اسی طرح جوش و داغ سے ہوتا ہوا یہ مشاعرہ موجودہ نہج پر پہنچا۔ میں اس عالمی مشاعرہ بیاد مجروح سلطان پوری کے انعقاد پر مجلس کے سرپرست و بانی شکیل احمد صبر حدی اور ان کی ٹیم کو مبارکباد پیش کر تا ہوں۔ اس عالمی مشاعرے سے  منسوب شاعر کی زندگی اور شاعری پر کتاب مجروح فہمی  کی اشاعت  ایک گرانقدر علمی کاوش ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، یہ اردو شعرو ادب کے طلبہ کے لئے ایک قیمتی تحفے سے کم نہیں ہے۔


        مجلسِ فخرِ بحرین برائے فروغِ اُردو کے زیرِ اہتمام ، بیادِ مجروح سلطان پوری،عالمی مشاعرے  میں شریک شعرائے کرام کی جھلک قارئینِ کرام کی نذر ہے،

جناب ڈاکٹر شہپر رسول(صدرِ مشاعرہ)

میں آج میں بھی کل کے آداب دیکھتا ہوں
تعبیر تم بتانا میں خواب دیکھتا ہوں                                              

لوگ جب سحرِ ریا میں مبتلا ہوتے گئے
جن کو بندہ بھی نہ ہونا تھا خدا ہونے لگے

خوش یقینی میں یوں خلل آیا
کچھ نکلنا تھا کچھ نکل آیا

جناب منصور عثمانی

کیا ضروری ہے کچھ بہانہ ہو
ہم سے ویسے بھی روٹھ جایا کر

زخم دل کے دہائی دینے لگیں
بات اتنی بھی مت بڑھایا کر

دنیا تری مراد ہے، دنیا تجھے نصیب ہو
دنیا تو اک پڑائو مرے راستے کا ہے

جناب عمران عامیؔ

دریا ہوئے تو اپنی روانی سے ڈر گئے
آتش پرست لوگ تھے پانی سے ڈر گئے

بابِ قفس کھلا بھی تو کچھ دیر کے لئے
جو قید میں نہیں تھے رہا کر دئے گئے

ہم کو ہماری نیند بھی پوری نہیں ملی
لوگوں کو ان کے خواب جگا کر دئے گئے

جناب چرن سنگھ بشرؔ

ابھی ہے صبر مجھ میں جتنا جی چاہے ستانے دو
پھر اس کے بعد تجھ کو بھی پریشانی میں رہنا ہے

یہ سچ تو ٹوٹ کے کب کا بکھر گیا ہوتا
اگر میں جھوٹ کی طاقت سے ڈر گیا ہوتا

یہ تیرا میکدہ یوں تو مری جاگیر ہے ساقی
مگر تشنہ لبی شاید مری تقدیر ہے ساقی

جناب ڈاکٹر مہتاب عالم

جلے گا تو ہمارا گھر جلے گا
تمھیں تو روشنی اچھی لگے گی

اگر جینا پڑا ہم کو بچھڑ کر
بتائو زندگی کیسی لگے گی

آنکھ کو آنکھ آنسووٗں نے کیا
درد نے دل کو دل بنایا ہے

جناب عزمؔ شاکری

کون کرتا ہے زمانے میں ہمارا اکرام
ہم کسی گھر سے نہیں دل سے نکالے گئے ہیں

جب ہم اپنے گھر آئے
آکھ میں آنسو بھر آئے

چڑیا رو کر کہتی ہے
کیوں بچوں کے پر آئے

جناب نواز دیو بندی

نیکیاں کم پڑ رہی تھیں نامہِٗ اعمال میں
شکر ہے کہ دوستوں کی گالیاں کام آ گئیں

دشمن ہماری ہار پر خوش تھے بہت یہاں
لیکن ہمارے دوست بھی کم خوش نہیں رہے

رُلایا اس نے یہ غم ہے مگر خوشی بھی ہے
وہ خود بھی رویا تھا ظالم مجھے رلاتے ہوئے

جناب اتُل اجنبیؔ

لوگ اس پہلو سے انجان بنے رہتے ہیں
جنگ میں صلح کے امکان بنے رہتے ہیں

جب بھی ملتے ہیں یہی پوچھتے ہیں کیسے ہو
کتنی دانائی سے نادان بنے رہتے ہیں

چمک آنسو کی بڑھتی جا رہی ہے
یقیناً زخم گہرے ہو رہے ہیں

جناب سلیم سالم

کسی روٹھے ہوئے کی ناز برداری میں رہتی ہے
ہماری زندگی بھی کتنی لا چاری میں رہتی ہے

نجانے کب نکلنا ہو تری آواز پر ہم کو
ہماری خامشی ہر وقت تیاری میں رہتی ہے

پلکوں پے جو ذرا سی بوندیں چمک رہی تھیں
دامن بڑھا کے اس نے طوفان کر دیا ہے

جناب خالد صبر حدی

چھینتے ہیں گویائی کو نطق و لب پر پہرے ہیں
سمع و بصارت رکھنے والے لوگ بھی اندھے بہرے ہیں

تھام کے انگلی سورج کی روشنی ہم بھی لیتے ہیں
سورج گر چھپ جائے تو بے وقعت ہم ٹھہرے ہیں

جناب احمد عادل

مرے کہے کو کبھی غور سے سنا ہی نہیں
کہا بھی میں نے کچھ ایسے کہ کچھ کہا بھی نہیں

یہ سب مزاج شناسی ہے آپ کی ورنہ
مری زبان پہ شکوہ کبھی ہوا ہی نہیں

جناب رُخسار ناظم آبادی

اک اندھیرا ہے یہ روشنی کی طرح
زندگی ہے نہیں زندگی کی طرح

یہ الگ بات وہ تھا دورِ جہالت لیکن
لوگ ان پڑھ بھی سمجھدار ہوا کرتے تھے

جناب سعید سعدیؔ

سلیقہ ہم نے سیکھا ایک پروانے سے جینے کا
اجل کی لوپہ  رقصِ زیست کرنا اور مر جانا

کل ملاقات ان سے طے تھی مگر
یہ بتائو کہ آج کیا کرتے

اس عالمی مشاعرے،بیادِ اسرارالحسن مجروحؔ سلطان پوری کی نظامت کے فرائض ، آسمانِ نظامت کے ماہتاب اورفنِّ نظامت میں شہرتِ کمال رکھنے والے ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے معروف شاعرجناب منصور عثمانی نے سر انجام دئے۔


عالمی مشاعرہ ،بیادِ مجروحؔ سلطان پوری